Maktaba Wahhabi

457 - 566
کار وہ کیا ہوجاتا ہے؟ عرض کیا ، جیسا کہ آپ جانتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((فَإِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ ضَرَبَ مَا یَخْرُجُ مِنَ ابْنِ آدَمَ مَثَلًا لِلدُّنْیَا۔))[1] ’’بے شک اللہ تعالیٰ نے مثال بیان کی ہے جو کچھ ابن آدم سے نکلتا ہے ، وہی اس دنیا کی مثال ہے۔ ‘‘ سلف صالحین میں سے کسی نے اپنے ساتھیوں سے کہا: میرے ساتھ چلو میں تمہیں دنیا دیکھاتا ہوں۔ وہ ان کو لے کر گندگی کے ایک ڈھیر کے پاس پہنچ گئے ، اور فرمایا: ’’ دیکھو! ان کے پھلوں کا ، اور ان کی مرغیوں کا اور ان کے شہد اور گھی کا یہ حال ہوگیا ہے۔ ‘‘[2] ۶۔ حقیقی لذت کے اسباب کے حصول کی کوششیں: علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ علی الاطلاق دنیا کی سب سے بڑی لذت اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی معرفت کی لذت اور اس کی محبت کی لذت ہے۔بے شک یہی دنیا کی اور اس کی عالیشان نعمتوں کی اصل لذت ہے۔ دنیا کی فانی لذتیں اس کی نسبت سے ایسے ہیں جیسے سمندر میں ایک تنکا۔ بے شک روح ، دل اور بدن اسی کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔ پس دنیا کی سب سے پاکیزہ چیز اللہ تعالیٰ کی معرفت اور اس کی محبت ہے، اور آخرت کی سب سے عمدہ چیز اللہ تعالیٰ کا دیدار اور اس کا مشاہدہ ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کی معرفت اور اس کی محبت آنکھوں کی ٹھنڈک اور روحوں کی لذت اور دلوں کی ترو تازگی ہیں۔دنیا کی نعمتیں اور اس کا سرور وہ منقطع ہونے والی لذتیں ہیں جن کا انجام دکھ اور عذاب ہے، اور ایسی لذتیں حاصل کرنے والا انتہائی تنگ اور سختی کی زندگی گزارتا ہے۔ پس پاکیزہ زندگی تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق قائم کرنے میں ہے۔ بعض محبین پر ایسے اوقات گزرے ہیں کہ وہ کہا کرتے تھے: ’’ اگر اہل جنت بھی ایسی ہی نعمتوں میں ہیں تو بے شک وہ پاکیزہ اور خوشگوار زندگی گزار رہے ہیں،
Flag Counter