Maktaba Wahhabi

460 - 566
وہ اپنے جسم اور بدن کی عیش و راحت سے غافل ہوجاتا ہے، اور وہ اس بات کی قدرت نہیں رکھتا کہ اس دنیا سے اپنی کوئی بہت بڑی شہوت پوری کرسکے، اورنہ ہی وہ اپنی حسی شہوات کو پانے کے لیے انھیں وسعت دیتا ہے۔ بس وہ اس دنیا سے اس قدر لے لیتا ہے جس سے اس کے بدن کی ضروریات پوری ہوجائیں۔ اس وجہ سے یقینا بدن کی عیش و راحت کم ہوجاتی ہے۔ بے شک یہی انبیا ء کرام h مرسلین عظام اوران کے ماننے والوں کا طریقہ کار رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا کرنا بھی ایسے تھا کہ ان کے اجسام کی عیش و راحت کا حصہ کم کردیا جائے، اور انھیں ان کے دلوں اور روحوں کی عیش کا حصہ پورا پورا دیا جائے۔ سیّدنا سہیل تستری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ کسی کو جتنا بھی اپنی قربت اور معرفت سے نوازتے ہیں ، اسی معرفت کی قدر اسے دنیا سے محروم کردیتے ہیں، اور جتنا اللہ تعالیٰ کسی کو اس دنیا سے نوازتے ہیں اپنی قربت اور معرفت سے اسی قدر محروم کرتے ہیں جتنا کہ دنیا سے نوازا گیا ہے۔ ‘‘[1] ۱۰۔ دنیا کے جلد زوال پذیر ہونے پر تدبرو تفکر: علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اہل دنیا کی غفلت میں مثال ان لوگوں کی ہے جو کشتی میں سوار ہوئے۔وہ کشتی انھیں لے کر ایک جزیرہ میں پہنچی۔ ملاح نے لوگوں کو حکم دیا کہ وہ قضائے حاجت کے لیے اتریں، اور انھیں خبردار کیا کہ کوئی آدمی پیچھے نہ رہے ورنہ کشتی چلی جائے گی۔ وہ لوگ جزیرے کے کونوں میں بکھر گئے۔ ان میں سے بعض نے اپنی حاجت پوری کی، اور جلدی جلدی واپس کشتی میں آگئے۔ انہوں نے خالی جگہ دیکھی، اور اپنے بیٹھنے کے لیے وسیع ،نرم اور موافق جگہ تلاش کرلی۔اور ان میں سے بعض جزیرہ میں ہی ٹھہرے رہے۔ جو کہ اس جزیرہ کے گل و لالہ اور رونق و
Flag Counter