Maktaba Wahhabi

51 - 566
عیش پرستی کی ایسی چیزیں استعمال کرتے ہیں ،جو ہمارے اس زمانے سے پہلے نہیں تھیں۔ اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ اسلام نے خوبصورتی اور صفائی کا خیال رکھنے کی تعلیمات دی ہیں، بلکہ اس کا حکم دیا ہے ؛ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿ يَا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ ﴾ (الأعراف:۳۱) ’’اے اولاد آدم! تم مسجد کی ہر حاضری کے وقت پر اپنا لباس پہن لیا کرو۔‘‘ مگر یہ حکم حد سے زیادہ تجاوز نہ کرنے اور زیادہ عیاشی نہ کرنے سے جڑا ہواہے۔ علامہ ابن عبد البر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ زینت اور نظافت کا اختیار کرنا اس وقت تک مباح ہے جب تک کہ نعمتوں میں اسراف[حد سے تجاوز ] اور متکبر لوگوں سے مشابہت نہ ہو۔‘‘[1] یہ عیاشی نہیں ہے کہ انسان نہائے دھوئے ، پاکیزگی اور صفائی ستھرائی کا اہتمام کرے۔ پسینہ وغیرہ کے اثرات ختم کرنے کے لیے اچھا صابن یا دیگر کوئی چیز استعمال کرے ،تاکہ صفائی دیر تک باقی رہے اور وہ پسینہ کی اس بو سے دوسروں کو تکلیف نہ دے۔نہ ہی مسجد میں اورنہ ہی دوسری جگہوں پر۔ مگر عیاشی یہ ہے کہ انسان ان چیزوں میں مبالغہ کرے ،ان امور پر بہت سارا مال خرچ کرے اور ان چیزوں کے پیچھے پڑکر اپنا بہت سارا قیمتی وقت ضائع کردے۔ ۳۔لباس کی خریداری میں مبالغہ: آج سے کچھ عرصہ ہی پہلے کی بات ہے کہ کسی انسان کے پاس پہننے کے لیے صرف ایک ہی جوڑا کپڑوں کا ہوا کرتا تھااورجب وہ اسے دھونا چاہتا یا صاف کرنا چاہتا تو اس کی مجبوری ہوا کرتی تھی کہ وہ گھر میں ہی ٹھہرا رہے یہاں تک کہ اس کے گھر والے اس کپڑے کو صاف کرکے خشک کرلیں جب تک وہ کپڑے بھیگے رہتے وہ لوگوں کی مجلس میں نہیں نکل سکتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں پر اپنا انعام کیا، ایک ایک شخص کے پاس کپڑوں کے کئی جوڑے ہیں۔ اس میں کوئی حرج والی بات نہیں ہے جب تک کہ یہ حدود کے اندر اور عرف کے مطابق ہوں۔
Flag Counter