Maktaba Wahhabi

521 - 566
حسد پیدا ہوتے ہیں۔‘‘[1] اور عبد اللہ بن الحسن رحمہ اللہ نے فرمایا ہے: ’’ جھگڑا کرنا پرانی سے پرانی دوستی بگاڑ پیدا کر دیتا ہے، اور بڑے مضبوط تعلقات کو توڑ دیتا ہے۔ مناظرہ و مجادلہ میں سب سے کم چیز یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ دوسرے فریق پر غالب آجائے، اور غالب آنے کی کوشش کرنا تعلقات توڑنے کے بڑے اسباب میں سے ایک ہے۔‘‘[2] ابراہیم النخعی رحمہ اللہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی تفسیر میں فرماتے ہیں: ﴿ وَأَلْقَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ ﴾ (المائدۃ:۶۴) ’’ اور ہم نے ان میں آپس میں ہی قیامت تک کے لیے عداوت اور بغض ڈال دیا ہے۔‘‘ [فرمایا:] اس سے مراد دین کے معاملہ میں مناظرے اورجھگڑا کرنا ہے۔‘‘[3] توفیق سے محرومی: اس لیے کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو کبھی خیر کی توفیق نہیں دیتے جن کی مجلسوں میں ناحق جھگڑے اورمناظرے ہوتے ہوں ، جن سے اللہ کی رضامندی مقصود نہ ہو۔‘‘ اللہ تعالیٰ سے دوری: سب سے کم درجہ کی خرابی جو کہ ایسے مناظروں میں پائی جاتی ہے جن سے اللہ تعالیٰ کی رضامندی مقصود نہیں ہوتی، وہ یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل ہوجاتا ہے۔ حتیٰ کہ یہ مناظرے انسان کو نماز سے بھی مشغول کردیتے ہیں۔ اس لیے کہ اس مناظر کا ذہن ہی مناظرہ میں لگاہوا ہے۔اسے کسی دوسری چیز کا خیال ہی نہیں۔
Flag Counter