Maktaba Wahhabi

569 - 566
عظیم القدر اور بڑی شان والا ہونے پراعتقاد رکھتا ہے۔ ((حَتَّی یُکْتَبَ فِي الْجَبَّارِیْنَ))یعنی ظالموں اور متکبرین کے دیوان میں اس کانام لکھ دیا جاتا ہے ، جیسے فرعون ، ہامان ، قارون۔ یا پھر ان کے ساتھ جہنم کے نچلے طبقہ میں اس کا اندراج کر دیا جاتا ہے۔[1] اس حدیث میں متکبر کی حالت بیان کی جارہی ہے کہ وہ کیسے دھیرے دھیرے تکبر کی سیڑھیاں چڑھتا جاتا ہے ؛ اور پھولتا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ ظالم ترین لوگوں میں سے ایک ظالم و جابر بن جاتا ہے۔ جب کہ شروع شروع میں اس کا یہ حال نہیں ہوتا۔ عقل مند انسان کو چاہیے کہ وہ تکبر کی عاقبت سے ڈرتا رہے ، خواہ یہ تکبر کتنے ہی چھوٹے امور میں کیوں نہ ہو۔ کبھی کبھی چھوٹا مرض اتنا بڑھتا ہے کہ لاعلاج ہوجاتا ہے۔ اکثر بڑی آگ ایک چھوٹی سی چنگاری سے پیدا ہوتی ہے۔ ۴۔ تکبر نعمتوں کے زوال کا سبب: سیّدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ((اَکَلَ عِنْدَ رَسُولِ اللّٰہِ صلي الله عليه وسلم بِشِمَالِہٖ فَقَالَ کُلْ بِیَمِینِکَ قَالَ لَا اَسْتَطِیعُ قَالَ لَا اسْتَطَعْتَ مَا مَنَعَہٗ اِلَّا الْکِبْرُ قَالَ فَمَا رَفَعَہَا اِلَی فِیہِ۔)) [2] ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص نے بائیں ہاتھ سے کھانا کھانا شروع کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: ’’ اپنے دائیں ہاتھ سے کھاؤ۔ ‘‘ وہ کہنے لگا کہ میں ایسا نہیں کر سکتا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم ایسا کر بھی نہ پاؤ۔ ‘‘ اس نے ایسا صرف تکبر کی بنا پر کہا۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ عمر بھر اپنا وہ ہاتھ منہ تک نہیں لے جا سکا۔ ‘‘
Flag Counter