Maktaba Wahhabi

96 - 566
سیّدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَثَلُ الْمُنَافِقِ کَمَثَلِ الشَّاۃِ الْعَائِرَۃِ بَیْنَ الْغَنَمَیْنِ تَعِیْرُ إِلٰی ہٰذِہِ مَرَّۃٍ وَإلٰی ہٰذِہِ مَرَۃً۔))[1] ’’ منافق کی مثال اس بکری کی طرح ہے جو دو ریوڑوں کے درمیان ماری ماری پھرتی ہے کبھی اس ریوڑ میں چرتی ہے اور کبھی اس ریوڑ میں۔‘‘ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ اَلْعَائِرۃِ‘‘ متردد اور سرگرداں کو کہتے ہیں۔ جس کو علم نہیں ہوتا کہ وہ کن کے ساتھ چلے، اور تعیر کا معنی ہے کہ متردد اور حیران اِدھر اُدھر آتی جاتی ہے۔ ‘‘[2] ۱۲۔ مومنوں کو دھوکا: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿ يُخَادِعُونَ اللَّهَ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَمَا يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُونَ ﴾ (البقرۃ: ۹) ’’اللہ سے دھوکا بازی کرتے ہیں اور ان لوگوں سے جو ایمان لائے، حالانکہ وہ اپنی جانوں کے سوا کسی کو دھوکا نہیں دے رہے اور وہ شعور نہیں رکھتے۔‘‘ منافق اللہ تعالیٰ اور مومنوں کو اپنی زبان کے قول اور تصدیق سے دھوکا دیتا ہے وہ اس طرح کہ اس کے دل میں جھوٹ اور شک پوشیدہ ہے۔ تاکہ وہ اپنی زبان سے اقرار کرکے اللہ تعالیٰ کے ان احکام سے اپنی جان بچالے جن کا اجراء کافر رہنے کی صورت میں اس پر ہوتا۔ اگر وہ اپنی زبان سے اس تصدیق اور اقرار کا اظہار نہ کرتا تواس پر بھی قتل کیے جانے یا پھر قیدی بنانے کے احکام جاری ہوتے۔ منافقین کا یہی اپنے رب کواور اس پر ایمان رکھنے والے مومنین کو دھوکا دینا ہے۔
Flag Counter