Maktaba Wahhabi

47 - 54
فقیری پسند کرتا ہے۔یہ عقل کا دشمن ہے انصاف کا خون کرتا ہے کہ چھوڑنے کی چیز کو پسند کرتا ہے اور پکڑنے کی چیز کو چھوڑتا ہے۔دنیا کو کوئی چھوڑے یا نہ چھوڑے آخر چھوٹے گی۔آخرت کو کوئی پسند کرے یا نہ کرے وہ آخر سر پر آئے گی اس لیے اے دنیا کے مسافر دنیا سے دھوکا نہ کھا۔آخرت سے نہ بھٹک۔راہ کی فکر نہ کر۔منزل کی فکر کر۔دنیا گزر جانے کے لیے ہے آخرت گزرنے کے لیے نہیں بلکہ رہ جانے کے لیے ہے۔اس لیے وہیں کے سامان میں لگ اور وہاں جاکر ہمیش موج اڑا۔امن چین کی بانسری بجا۔للہ بقا کو فنا کے بھینٹ نہ چڑھا۔انمول چیز کو کوڑیوں کے مول نہ دے۔باور رکھ اگر تو ہماری اس نصیحت کو پلو میں باندھ لے گا تو ناکامی کا منہ کبھی نہ دیکھے گا۔یاس و حسرت سے کبھی دوچار نہ ہوگا اور ہم کو ہمیش دعا دے گا۔ دنیا اور دین کی فکر کی ایک ہی راہ: اے دنیا کے طلبگار آخرت سے بیزار۔دنیا کو دنیا ہی کی نظر سے دیکھنے والے آخرت کو دنیا سے جدا سمجھنے والے آ ہم تجھ کو دنیا ہی میں دین دکھائیں اور خود دنیا کی زبانی تجھ کو آخرت کی کہانی سنائیں۔دنیا کی ہر بات تجھ کو پیاری لگتی ہے اور دین کی ہر بات تجھ کو کھٹکتی ہے کیا تو یہ نہیں سمجھتا کہ دنیا خود تجھ کو دین سکھاتی ہے مگر رنگ اس کو دوسرا دیتی ہے اور ایک عجب ڈھنگ سے تجھ کو پٹی پڑھاتی ہے۔اگر آج نوجوان ہے ہٹا کٹا پہلوان ہے۔دنیا میں لگا ہے آخرت کو پیچھے ڈالا ہے اور دین کو بھلایا ہے مگر اب بھی تو کسی قدر دور اندیش ہے۔کل کی آج فکر کرتا ہے وہ دن گویا تیرے سامنے ہے جبکہ تو جوانی کھوبیٹھے گا۔بڑھاپے کی منزل پے کھڑا ہوگا۔کمانے سے تو عاجز ہوگا اور خود اپنا بوجھ تجھ پر بھاری ہوگا۔اس مجبوری کے عالم کو تو ابھی سے دماغ میں لاتا ہے اور جوانی میں ہی بڑھاپے کے آرام کی بنیاد ڈالتا ہے اس طرح کہ اپنی جوانی کی کمائی سے کچھ پس انداز کرتا ہے اور اپنی آمدنی سے کچھ ضرور بچاتا ہے تو یہ تیری کنجوسی نہیں دور اندیشی ہے۔یہ تیری ناسمجھی نہیں ہوشیاری ہی ہے۔تو سوچتا ہے کہ بوڑھا ہوں گا کہاں سے کھاؤں گا۔ہاتھ پیر جواب دیں گے تو کیسے کماؤں گا۔اب جو جوان جتنا کمائے اتنا ہی کھائے آگے کے لیے کچھ نہ بچائے اور اپنی بیوقوفی سے یہ سمجھ بیٹھے کہ ہمیشہ ایسا ہی بنا رہوں
Flag Counter