Maktaba Wahhabi

97 - 130
میں جاتے ہیں ، اور سب سے آخر میں وہاں سے نکلتے ہیں ،کیونکہ یہ شیطان کے ساتھ معرکہ کی جگہ ہے ،اور وہاں پر ہی شیطان نے اپنے جھنڈے گاڑے ہوتے ہیں ۔‘‘ یہ وعید اس عوام کے لیے ہے ، جو بے سبب بازاروں کی زینت بنے رہتے ہیں ۔ورنہ تاجروں کے لیے ،جو سچے اور امانت دار ہوں ، اس بازار میں رہتے ہوئے ہی شھداء اور صالحین کے ساتھ جنت کی بشارت ہے۔کسی انسان کی توہین کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ کہا جائے :فلاں بازاری آدمی ہے ۔لہٰذاانسان کو چاہیے کہ اپنے کام اور مقصد کا تعین کرکے بازار جائے، اور مقصد پورا ہونے پر جلد سے جلد گھر لوٹ آئے۔ عورت کے لیے بوقت ضرورت بہ امر مجبوری بازار میں جانے کا جواز موجود ہے ۔ مگر ہر روز بلاوجہ بازار میں گھومنا شریف اور خاندانی عورت کا کام نہیں ۔ اس سے بہت سارے خانگی اور دیگر حقوق ضائع ہوتے ہیں ۔ وقت کے بے جا ضیاع کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کے اسباب میں سے ایک سبب ہے۔جس پر شیطان خوش ہوتاہے۔ پارک، شیطانی جال: سرشام ہی لوگ جھنڈ در جھنڈپارکوں میں چلے آتے ہیں ۔عیاشی کے ان نئے أڈوں کی رونقیں دوبالا کرنے میں بابو،بی بی اور میاں ، سارے اس میں برابر کے شریک ہیں ۔ اکثر پارک حیاء سوز ملاقاتوں کے لیے ایک نقطہء ربط کا کام دیتے ہیں ۔ عورتیں اور مرد شتر بے مہار کی طرح گھومتے رہتے ہیں ۔اور ایکسکیوز می، ہیلو، ہائے، سوری، آئی لاؤ یو ، کے حیاء سوز ،غیرت شکن اور بے ہودہ جملے بکثرت سننے کو ملتے ہیں ۔ اس باپ اور بھائی کی غیرت کا جنازہ بھی اس وقت اٹھ جاتا ہے ، جب کوئی منچلا کسی بیٹی یا بہن کو چھیڑ کر ’’سوری ‘‘کے لفظ سے جان چھڑا لیتا ہے ۔ یہ سب ہمارے اپنے گناہوں کی سزا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عورتوں اور مردوں کے اختلاط اور بے پردگی سے منع فرمایا تھا ، جس پر عمل نہ کرنے کے
Flag Counter