Maktaba Wahhabi

330 - 532
عمر رضی اللہ عنہ کے فرمان کا مطلب یہ تھا کہ یہ عمل اس شکل میں اس وقت سے پہلے انجام نہ دیاجاتا تھا،البتہ شریعت میں اس کے اصول ودلائل موجود تھے جن سے یہ مسئلہ مستنبط تھا،علی وجہ المثال چند دلائل حسب ذیل ہیں: 1- نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کوقیام رمضان پر ابھارتے اور اس کی رغبت دلاتے تھے،اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مسجد میں مختلف جماعتوں میں اور انفرادی طور پر بھی قیام اللیل ادا کرتے تھے،اور خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی صحابۂ کرام کو کئی راتیں با جماعت قیام اللیل پڑھایا،اورپھر اس خوف سے رک گئے کہ کہیں امت پر قیام اللیل(تراویح)فرض نہ ہو جائے،اور لوگ اس کی ادائیگی نہ کرسکیں،اور یہ خوف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جاتا رہا [1]۔ 2- نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کی اتباع اور پیروی کا حکم دیا ہے،اور یہ عمل خلفائے راشدین کی سنتوں میں سے ہے[2]۔ بدعت کی دو قسمیں ہیں: 1- بدعت مکفرہ:یہ وہ بدعت ہے جس کا مر تکب دائرہ ٔ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔ 2- بدعت مفسقہ:یہ وہ بدعت ہے جس کا مرتکب دائرہ ٔ اسلام سے خارج نہیں ہوتا [3]۔ دوسرا مسلک:قبولیت عمل کی شرطیں: تقرب الٰہی کی غرض سے کئے گئے کسی بھی عمل کی قبولیت کے لئے دو شرطیں ضروری ہیں: پہلی شرط:وہ عمل خالص اللہ وحدہ لا شریک کی رضا و خوشنودی کے لئے کیا جائے،کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
Flag Counter