Maktaba Wahhabi

420 - 532
قرطبی)نے بیان فرمایا ہے کہ یہ کہنا آیت کریمہ کو منسوخ کہنے سے زیادہ بہتر ہے کیونکہ نسخ کا مرحلہ تطبیق ممکن نہ ہونے کی صورت میں آتا ہے،اور چونکہ(یہاں)تطبیق ممکن ہے اس لئے وہی اولیٰ و بہترہے[1]۔ کبھی کبھی تقویٰ کا استعمال حرام امور سے اجتناب پر غالب ہوتا ہے،جیسا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے تقویٰ کے متعلق سوال کئے جانے پر(سائل سے)فرمایا:کیا تم خاردار راستے سے گزرے ہو؟ اس نے کہا:ہاں! پوچھا:تو تم نے کیسے کیا کیا؟ اس نے کہا:جب میں کانٹا دیکھتا تو اس سے ہٹ جاتا،یا اسے پھلانگ جاتا،یا اسے چھوڑ ہی دیتا،تو انھوں نے فرمایا:’’یہی تقویٰ ہے‘‘۔ ابن المعتز نے تقویٰ کے اسی مفہوم کو لے کر کہا ہے: خــل الـــذنــوب صـغـیــرھا وکــــبیـرھا فــھــو التــــــــقیٰ واصنـــــع کــــماشٍ فـــوق أرض الشـــوک یحــــذر مایـری لا تحقـــــــرن صـغـیــــــرۃ ان الجـبال مـــن الحــصـی [2] چھوٹے بڑے تمام گناہوں کو ترک کردو،کہ یہی تقویٰ ہے اور اس طرح کرو جس طرح پر خار زمین پرچلنے والا(کانٹوں وغیرہ کو دیکھ کر)اس سے بچ کر چلتا ہے،چھوٹے گناہوں کو حقیر نہ سمجھو کہ کنکریوں ہی سے پہاڑبنتے ہیں۔ دوسرا مسلک:تقویٰ کی اہمیت: تقویٰ کئی وجوہ سے دنیا و آخرت کی کامیابی کے اہم ترین اسباب میں سے ہے،ان میں سے چند وجوہ درج ذیل ہیں: اول:اللہ عز وجل نے تمام اولین و آخرین(اگلوں پچھلوں)کو تقویٰ کی وصیت فرمائی ہے،اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَلَقَدْ وَصَّيْنَا الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ وَإِيَّاكُمْ أَنِ اتَّقُوا اللّٰهَ ۚ[3]۔
Flag Counter