Maktaba Wahhabi

90 - 532
روشنی ہوگئی اوردونوں اس روشنی میں چلتے رہے یہاں تک کہ جب دونوں جدا ہوئے تو دوسرے کی لاٹھی میں بھی روشنی ہوگئی،اس طرح دونوں اپنی اپنی لاٹھی کی روشنی میں چلتے رہے یہاں تک کہ اپنی منزل پرپہنچے‘‘۔ اور حمادبن سلمہ کی روایت کو امام احمد اور حاکم نے اپنی مستدرک میں ان الفاظ سے موصول ذکر کیا ہے: ’’اسید بن حضیر اور عباد بن بشر رضی اللہ عنہما گھٹا ٹوپ اندھیری رات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے،چنانچہ جب دونوں نکلے تو دونوں میں سے ایک کی لاٹھی میں روشنی ہوگئی اور دونوں اس روشنی میں چلتے رہے،اور جب دونوں نے جد اہوکر اپنی اپنی راہ لی تو دوسرے کی لاٹھی میں بھی روشنی ہوگئی‘‘[1]۔ یہ اولیاء کرام کی کرامات کے قبیل سے ہے کیونکہ نیکوکار حضرات کو جب کوئی خلاف عادت امر پیش آتاہے تو وہ کرامت کہلاتا ہے،اور اگر کسی فاسق کو پیش آجائے تو وہ شیطانی عمل(شعبدہ)ہے،اور اگر کسی مجہول اور گمنام شخص کو پیش آجائے تو اس کا معاملہ کتاب وسنت کی کسوٹی پر پرکھا جائے گا۔ یہ نور جو ان دونوں صحابۂ کرام کو پیش آیا ایمان اور تقویٰ کے نور پر مبنی ہے،جس سے ان کا باطن منور ہواتھا،اور اللہ نے دونوں میں سے ہر ایک کی لاٹھی میں روشنی پیدا کردی جس سے ان کا ظاہر روشن ہوگیا،یہ فضیلت ہر مومن کو حاصل ہو ‘یہ ضروری نہیں،بلکہ یہ مسئلہ اللہ عزوجل کے سپرد(اس کی مشیت پر مبنی)ہے۔ (16)ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’من قرأسورۃ الکھف یوم الجمعۃ أضاء لہ من النور ما بین الجمعتین‘‘[2]۔ جو شخص جمعہ کے روز سورۂ کہف پڑھے گا اس کے دو جمعہ کے مابین روشنی رہے گی۔ علامہ ملا علی قاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’أضاء لہ من النور‘‘کے معنیٰ ہیں کہ اس کے دل میں،یا قبر میں یا حشر کے روز سب سے بڑے مجمع میں نورروشن ہوگا،’’مابین الجمعتین‘‘ یعنی دو جمعوں کے درمیان کے وقت کی مقدار اور اسی طرح ہر جمعہ میں ہوگا جس میں وہ(اس)سورہ کی تلاوت کرے گا‘‘[3]۔
Flag Counter