Maktaba Wahhabi

116 - 372
اسلام اورمغرب تعدد ازواج کے پس منظر میں اہل مغرب،یورپ اوران جیسی تہذیب رکھنے والے ممالک،جنسی اباحیت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔وہاں صنفی خواہش اور تلذذ کو بھڑکانے والے محرکات وعوامل کو دن بدن پذیرائی حاصل ہو رہی ہے۔جس کی وجہ سے اپنی بیوی اوراپنے شوہر کے علاوہ دیگر خواتین وحضرات سے ناجائز تعلق رکھنا نہ صرف عام ہے بلکہ اب کوئی معیوب امر بھی نہیں سمجھاجاتا۔البتہ بیوی کی موجودگی میں کوئی،داشتہ عورت سے نکاح کرے تواسے بہت معیوب سمجھتے ہیں۔قانون تعدد ازواج کو برا خیال کیاجاتاہے جبکہ غیر قانونی تعدد ازواج کا رواج عام ہے۔ان ممالک کے لوگ بچوں کوپالنا مصیبت سمجھتے ہیں۔کیونکہ بچے ان کی زندگی کی رنگینیاں غارت کردیتے ہیں۔لہذا ایک تو ان ممالک میں قلت اولاد اورآبادی میں کمی کا مسئلہ درپیش ہے۔اوراگر بچے ہیں بھی توان میں حرامی بچوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔مزید برآں ناجائز بچوں اورکنواری ماؤں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔’تفسیر ضیاء القرآن‘ میں لکھاہے: ’’کیا یورپ اورامریکہ اپنی تمام تر سائنسی ترقی کے باوجود حرامی بچوں اورکنواری ماؤں کی تعداد میں ہوش ربا اضافے کے باعث پریشان نہیں؟ یو۔این۔او۔کی رپورٹ کے مطابق بعض یورپین ممالک میں ناجائز ولاد توں کی اوسط ۶۰فیصد تک پہنچ گئی ہے۔۵۳؎ ایک سے زیادہ بیویوں کومذموم فعل سمجھنے کے اس مغربی تخیل کی بنیادیں دو ہیں۔ پہلی بنیاد فحاشی،بدکاری،داشتائیں رکھنے کی عام اجازت اورجنسی آوارگی ہے۔جسے مغرب میں مذموم فعل کی بجائے عین جائز بلکہ مستحسن سمجھاجارہاہے۔ دوسری بنیاد مادیت پرستی ہے۔جس میں ہر شخص یہ توچاہتاہے کہ اس کا معیار زندگی بلندہو اوراولاد کو اعلیٰ تعلیم دلائے۔مگر ان باتوں پر چونکہ بے پناہ اخراجات اٹھتے ہیں۔جو ہر انسان پورے نہیں کرسکتا لہذا وہ اس بات کو ترجیح دیتے ہیں کہ اس کے ہاں اولاد ہی نہ ہو یاکم سے کم ہو۔اورظاہر ہے کہ ایسا معاشرہ توایک بیوی کو بمشکل برداشت کرتاہے۔اوروہ بہتر یہی سمجھتاہے کہ بیوی ایک بھی نہ ہو اوربدکاری سے ہی کام چلتا رہے۔جبکہ اسلام سب سے زیادہ زور نکاح پر دیتاہے۔اورہر طرح کی فحاشی،عریانی کومعیوب فعل قرار دیتاہے۔اورمعیار زندگی کوبلندکرنے کی بجائے سادہ زندگی بسر کرنے کی تلقین کرتاہے۔اسی لیے اس نے اقتصاد اورحالات کے مطابق چار بیویوں تک کی اجازت دی ہے۔اب بتائیے کہ اس مغربی تخیل اوراسلامی تخیل میں مطابقت کی کوئی صورت پیدا کی جاسکتی ہے۔اسی مغربی تخیل سے اور بعض خواتین کے مطالبہ سے متاثر ہو کر صدر ایوب کے دور میں پاکستان مسلم عائلی قوانین کا آرڈنینس ’۱۹۶۱ء‘ پاس ہوا۔اس میں ایک شق یہ بھی تھی کہ اگر مرد شادی شدہ ہو اوردوسری شادی کرنا چاہتاہو توسب سے پہلے اپنی پہلی بیوی سے دوسری شادی کے لیے رضامندی کی تحریری اجازت لے کر ثالثی کونسل سے اجازت نامہ حاصل کرے اوراگر ثالثی کونسل بھی اجازت دے دے تو تب ہی وہ دوسری شادی کرسکتاہے۔جیساکہ اس آرڈنینس کی شق نمبر ۲۱ اور ۲۲ سے واضح ہوتاہے۔گویا حکومت نے نکاح ثانی پر ایسی پابندیاں لگادیں کہ کوئی شخص انتہائی مجبوری کے بغیر دوسری شادی کا سوچ بھی نہیں سکتا۔اورعملا اس اجازت کوختم کردیا جو اللہ تعالیٰ نے مرد کودی تھی۔اس بات کوسامنے
Flag Counter