Maktaba Wahhabi

153 - 372
خاوند کے بیوی پر حقوق حقوقِ و فرائض کی تعیین سے قبل یہ بات واضح رہے کہ رشتہ دین داری کی بنیاد پر کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((تُنْکَحُ الْمَرْاَۃُ لِاَرْبَعٍ:لِمَالِھَا‘ وَلِحَسَبِھَا‘ وَلِجَمَالِھَا‘ وَلِدِیْنِھَا‘ فَاظْفُرْ بِذَاتِ الدِّیْنِ تَرِبَتْ یَدَاکَ)) ۱؎ ’’عورت سے چارچیزوں کی بنیاد پرنکاح کیا جاتا ہے:اس کے مال‘ حسب و نسب ‘خوبصورتی اور دین کی وجہ سے پس تم دین داری کو ترجیح دو‘ تمہارے ہاتھ خاک آلود ہوں۔‘‘ حدیثِ نبوی سے یہ مراد نہیں ہے کہ عورت سے نکاح کے وقت اُس کی خوبصورتی کو نظر انداز کر دینا چاہیے‘ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد دراصل یہ ہے کہ’ دین دار‘ عورت کو’ خوبصورت‘ عورت کے مقابلہ میں ترجیح دینی چاہیے اور اسی طرح مال دار اور خاندان والی عورت کے بالمقابل دین دار عورت کو اختیار کرنا چاہیے۔اس حدیث سے اُس شخص کی مذمت ثابت ہو رہی ہے جو عورت کے آداب اور دین کے بجائے صرف اس کے حسن اور خوبصورتی کی وجہ سے اس سے نکاح کرتا ہے۔حضرت سلیمان بن داؤدعلیہما السلام سے مروی ہے: ’’اَلْجَمَالُ کَاذِبٌ وَالْحُسْنُ مُخْتَلِفٌ‘‘۲؎ ’’حسن جھوٹا ہے اور خراب ہونے والا ہے۔‘‘ جیسا کہ شاعر کا قول بھی ہے: فَلَا تَجْعَلِ الْحُسْنَ الدَّلِیْلَ عَلَی الْفَتَی فَمَا کُلُّ مَصْقُوْلِ الْحَدِیْدِ یَمَانِیْ ’’تم حسن کو نوجوانی کی دلیل نہ بناؤ ‘کیونکہ ہر چمکتا ہوا لوہا عقیق(ایک قیمتی پتھر) نہیں ہوتا۔‘‘ اَکثم بن صیفی نے اپنے بعض بیٹوں کو نصحیت کرتے ہوئے کہا:’’رذیل عورت کو اختیار کرنے سے بچو‘ کیونکہ اگر اس کے پاس مال ہے تو وہ ختم ہو جائے گا اور تمہارے ہاتھ صرف اس کی بدبختی آئے گی‘‘۔۳؎ ہمارے ہاں شادی بیاہ کے وقت عورت کے حسن کو بہت زیادہ ترجیح دی جاتی ہے اوریہ بھی أمر واقعہ ہے کہ اکثر حسین عورتیں بدمزاج ‘اکھڑ اور مغرور ہوتی ہیں۔اور اپنے حسن پر ناز کی وجہ سے اکثر اوقات ان کے تعلقات اپنے خاوندوں سے کشیدہ رہتے ہیں۔اگر کسی عورت میں حسن صورت کے ساتھ ساتھ حسن سیرت بھی ہو تو اس کا کیا کہنا!دین و دنیا ایک ہی عورت میں مل جائے تو اس سے بڑھ کر اور نعمت کیا ہوسکتی ہے لیکن ایسا عموما بہت ہی کم ہوتا ہے نوجوانوں کو اور ان کے والدین کو چاہیے کہ شادی کے وقت اصل معیار عورت کے حسن اخلاق اور اس کی دینداری کو بنائیں،اس کے بعد باقی خصوصیات کو پیش نظر رکھیں۔ جب دین داری کے ساتھ ساتھ عورت کا حق مہر بھی کم ہو ‘ وہ ضروری علوم اور گھریلو کام کاج وغیرہ سے بھی واقف ہو‘ اور اس کے علاوہ اس کی پرورش بھی ایسے والدین نے کی ہو،جن میں کمال درجہ کی باہمی محبت و الفت ہو اور باعزت خاندان میں اس عورت نے پرورش پائی ہو تو ایسی عورت سے دنیا وآخرت کی سعادت اور ہمیشہ کی خوش بختی حاصل ہو گی۔
Flag Counter