Maktaba Wahhabi

162 - 372
کے عورت کو گھر پر ٹھہرنے کے حکم کی مصلحت عورت کا فائدہ اور راحت ہے۔اسلام عورت کو اُن چیزوں کی طرف لے جانا چاہتا ہے جن کی وجہ سے عورت کی شان‘ مرتبہ‘ راحت اور خوش نصیبی میں اضافہ ہو۔ 4۔مال و اولاد کی نگرانی 1۔خاوند کے گھر سے کوئی چیز اس کی اجازت کے بغیر نہ دے عورت کے محاسن میں سے ہے کہ شوہر کے مال کو ضائع نہ کرے‘ چاہے وہ مال ذخیرہ کی شکل میں ہو‘ کھانے پینے کی چیزیں ہوں یا لباس ہو‘ بلکہ اس کی حفاظت کرے۔اگر وہ ایسا نہ کرے گی تو شوہر کے مال میں کمی ازدواجی محبت میں بھی کمی کا باعث ہو گی۔اس طرح ازدواجی زندگی کی رونق ختم ہو جائے گی اور نیاپن پرانا ہو جائے گااور یہی کوتاہی نفرت کا سبب اور ضد کی وجہ بن جائے گی۔اسی وجہ سے بیوی کا یہ فرض ہے کہ مال کو ضائع کرنے سے بچے اور اس مال کو نفع بخش بنانے اور بڑھانے کی طرف توجہ دے۔چنانچہ اگر وہ شوہر کے مال میں سے کچھ مال فقیر کو یا کسی اور کو دے دے‘ چاہے وہ کتنا ہی تھوڑا کیوں نہ ہو‘ تو یہ شوہر کی اجازت سے ہو‘ یا کم از کم اس کے علم میں ہوناچاہیے۔ سنن ابی داؤد اور سنن الترمذی میں ایک حدیث ہے‘ جسے امام ترمذی رحمہ اللہ نے حسن کہا ہے۔حضرت ابواُمامہ الباہلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ((لَا تُنْفِقِ امْرَاَۃٌ شَیْئًا مِنْ بَیْتِ زَوْجِھَا اِلاَّ بِاِذْنِ زَوْجِھَا)) قِیْلَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ وَلَا الطَّعَامُ؟ قَالَ:((ذَاکَ اَفْضَلُ اَمْوَالِنَا)) ۲۶؎ ’’ کوئی عورت اپنے شوہر کے گھر سے اس کی اجازت کے بغیر کوئی چیز خرچ نہ کرے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا:کیا کھانا بھی؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:یہ تو ہمارا بہترین مال ہے۔‘‘ اور اگر وہ عورت شوہر کی اجازت سے خرچ کرے گی تو دونوں اجر میں برابر ہوں گے‘ کیونکہ مرد نے کمایا اور اجر پایا ‘جبکہ عورت اس مال کا صدقہ کر کے اجر حاصل کرتی ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((اِذَا اَنْفَقَتِ الْمَرْاَۃُ مِنْ طَعَامِ بَیْتِھَا غَیْرَ مُفْسِدَۃٍ کَانَ لَھَا اَجْرُھَا بِمَا اَنْفَقَتْ وَلِزَوْجِھَا اَجْرُہٗ بِمَا کَسَبَ وَلِلْخَازِنِ مِثْلُ ذٰلِکَ لَا یَنْقُصُ بَعْضُھُمْ اَجْرَ بَعْضٍ شَیْئًا )) ۲۷؎ ’’جب عورت اپنے گھر کے کھانے میں سے کچھ اللہ کی راہ میں دیتی ہے تو جتنا وہ دیتی ہے اُسی قدر اُسکو اجر ملتا ہے بشرطیکہ یہ دینا بغیر کسی فساد کے ہو ‘اور اسکے شوہر کو بھی اجر ہو گا کیونکہ اس نے کمایا اور منتظم کے لیے بھی ایسا ہی اجر ہو گا‘ اور بعض کی وجہ سے بعض کا اجر کم نہ ہو گا۔‘‘ عورت کو چاہیے کہ وہ شوہر کے مال کو اپنا مال سمجھے جب وہ شوہر کے مال کو اپنا مال سمجھے گی اور حقیقت بھی یہی ہے تو اس کو ضائع کرنے سے بچے گی۔ہمارے ہاں عورتوں میں یہ عام عادت پائی جاتی ہے وہ یہ سمجھتی ہیں کہ شاید ان کے شوہروں کا مال ان کا اپنا مال نہیں ہے اس لیے وہ ضرورت سے زائدزیورات ‘ کپڑے ‘گھریلو سازو سامان بنانے کے لیے ہر وقت اپنے شوہر کی جیب سے کچھ نہ کچھ نکلوانے کے چکر میں ہوتی ہیں۔اور فضو ل جگہوں پر شوہر کا مال خرچ کر کے یہ سمجھتی ہیں کہ انھوں نے بڑا معرکہ مار لیا ہے۔ایک اچھی بیوی ہمیشہ شوہر کے مال کو اپنا مال ہی سمجھتی ہے اور فضول خرچی کی بجائے،کفایت شعاری کو اپنا شیوہ بناتی ہے۔
Flag Counter