Maktaba Wahhabi

172 - 372
دیئے،جس سے رقص و سرود اور بے حیائی کی محفلوں میں اضافہ ہوا‘ عورت اپنے آپ کو مطلق آزاد سمجھنے لگی،عورتوں میں آتشک اور سوزاک جیسے جنسی امراض پیدا ہونے لگیں۔ان کی تعداد کم ہو گئی‘ بے حیائی عام ہوگئی اور ان کی آئندہ آنے والی نسلیں بیمار پیدا ہونے لگیں۔ان تمام تر برائیوں سے خلاصی کی ایک ہی صورت ہے ‘اور وہ یہ کہ تعدّدِ ازواج سے متعلق اسلام کی منشا کی طرف رجوع کیاجائے۔ 3۔بیوی کے معاشی حقوق عورتوں کے اپنے شوہروں پر درج ذیل حقوق ہیں: 1۔حق مہر کی ادائیگی عورت کا اُس کے شوہر پر پہلا حق یہ ہے کہ وہ اُس کا مہر پورا پورا ادا کرے۔امام طبرانی رحمہ اللہ نے ’’المعجم الصغیر‘‘ اور ’’المعجم الأوسط‘‘ میں روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((اَیُّمَا رَجُلٍ تَزَوَّجَ امْرَاَۃً عَلٰی مَا قَلَّ مِنَ الْمَھْرِ اَوْ کَثُرَ ‘ لَیْسَ فِیْ نَفْسِہٖ اَنْ یُؤَدِّیَ اِلَیْھَا حَقَّھَا لَقِیَ اللّٰہَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَھُوَ زَانٍ)) ۱۹؎ ’’جس شخص نے بھی کسی عورت سے شادی کی اور اس کے لیے تھوڑا یا زیادہ مہر مقرر کیا ‘لیکن اس کے جی میں اُس کا حق مہر ادا کرنے کا ارادہ نہ تھا تو قیامت کے دن وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ وہ زانی ہو گا۔‘‘ مزید برآں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ((مِنْ اَعْظَمِ الذُّنُوْبِ عِنْدَ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ رَجُلٌ تَزَوَّجَ امْرَاَۃً ‘ فَلَمَّا قَضٰی حَاجَتَہٗ مِنْھَا طَلَّقَھَا وَذَھَبَ بِمَھْرِھَا)) ۲۰؎ ’’اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ بات عظیم ترین گناہوں میں شمار ہوتی ہے کہ کوئی مرد کسی عورت سے نکاح کرے‘ پھر جب اپنی خواہش پوری کرلے تو اُس کو طلاق دے دے اور اس کا حق مہر لے اُڑے۔‘‘ ہاں اگرعورت اپنی آزادمرضی سے شادی کے بعد حق مہر معاف کر دے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔لیکن ہمارے ہاں ہوتا یہ ہے کہ عورت کو یقین ہوتا ہے کہ ملنا تو ہے ہی نہیں ‘اب معاف ہی کر دیں تو کم از کم خاوند پراحسان ہی ہو جائے گا۔خاوند کی طرف سے ایساطرز عمل رکھناجائز نہیں ہے۔شریعت نے حق مہر کی کوئی حد مقرر نہیں کی ہے یہ زیادہ بھی ہوسکتا ہے اور تھوڑابھی،بہتر ہے کہ اتنا ہی مقرر کیا جائے جتنا شوہر آسانی سے ادا کر سکے۔ 2۔عورت پر معروف(رواج) کے مطابق خرچ کرنا شوہر کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ احسان و حسن سلوک کرے۔اس کو خرچہ دے ‘اس کی ضروریات کا خیال رکھے‘ اس کے کپڑوں کا دھیان کرے‘ اس کے ساتھ خوش دلی سے معاملہ کرے اور بات میں نرمی اختیار کرے۔کیونکہ اِن باتوں کے بارے میں شوہر سے سوال ہو گا۔جیسا کہ حدیث میں ہے: ((اِنَّ اللّٰہ سَائِلٌ کُلَّ رَاعٍ عَمَّا اسْتَرْعَاہُ اَحَفِظَ اَمْ ضَیَّعَ؟ حَتّٰی یُسْاَلَ الرَّجُلُ عَنْ اَھْلِ بَیْتِہٖ )) ۲۱؎
Flag Counter