Maktaba Wahhabi

175 - 372
اللّٰہَ مَا اَمَرَھُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ﴾۳۳؎ ’’اے اہل ایمان!اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اُس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے‘ اس آگ پر ایسے فرشتے مقرر ہیں جو کہ سخت اور تندخو ہیں‘ وہ اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے اس کام میں جس کا وہ ان کو حکم دے‘ اور جس کا ان کو حکم دیا جاتا ہے اسے وہ بجا لاتے ہیں۔‘‘ اور صحیحین میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اَلَا کُلُّکُمْ رَاعٍ وَّکُلُّکُمْ مَسْؤلٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ)) ۳۴؎ ’’خبردار!تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے اور ہر ایک سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔‘‘ صحیح بخاری میں یہ الفاظ بھی ہیں: ((وَالرَّجُلُ رَاعٍ فِیْ اَھْلِ بَیْتِہٖ وَھُوَ مَسْؤلٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ)) ۳۵؎ ’’اور آدمی اپنے اہل و عیال کا ذمہ دار ہے اور اس سے اپنی رعایا کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔‘‘ 3۔بیوی کے تعلیمی حقوق 1۔بیوی کی دینی تعلیم کامناسب انتظام کرنا عورت کی تعلیم مَرد کے ذمہ ہے اور یہ عورت کا حق ہے۔اہل علم نے کہا ہے کہ آدمی کو اپنی بیوی کی ضروری تعلیم کے لیے کوشاں رہنا چاہیے،عورت پر علماء سے سوال کرنے کے لیے گھر سے باہر نکلنا ممنوع ہے۔اسی طرح اگر مَرد علماء سے سوال پوچھنے میں عورت کی نیابت کرے اور خود علماء سے رابطہ کر کے بیوی کو مسائل سے آگاہ کر دے تو پھر بھی عورت کے لیے گھر سے نکلنا ممنوع ہے۔اگر ایسا معاملہ نہ ہو تو پھر عورت دین کے بارے میں سوال کرنے کے لیے گھر سے باہر نکل سکتی ہے اور مَرد اگر اس کو منع کرے گا تو گناہ گار ہو گا۔اور جب عورت شریعت کے بعض احکامات میں کوتاہی کرتی ہے اور مَرد اس کے لیے مناسب تعلیم کا بندوبست نہیں کرتا تو وہ گناہ گار ہو گا،کیونکہ احکامِ دینیہ‘ جن کا تعلق عقائد،عبادات اور معاملات سے ہے،ان کا سیکھنا ہر بالغ مَرد و عورت پر فرض ہے۔ شوہر کے لیے ضروری ہے کہ اپنی بیوی کی دینی تعلیم کے معاملے میں بھی ایسی ہی حرص کا مظاہرہ کرے جیسا کہ اس کے کھانے اور کپڑوں کے معاملہ میں مَرد حضرات حساس ہوتے ہیں‘ کیونکہ ایسی ضرورت جس سے عورت کی آخرت سنور جائے ‘اس ضرورت سے کئی گنا بہتر ہے جس سے اس کا صرف پیٹ بھرا جا سکتا ہے۔جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿یٰٓاَیھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْآ اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا﴾۳۶؎ ’’اے اہل ایمان!اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آگ سے بچاؤ۔‘‘ یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ شوہر بیوی کی تعلیم کا ذمہ دار ہے۔شوہر اپنی بیوی کو صحیح عقائد کی تعلیم دے اور ہر اُس بدعت کو جو کہ اس کے دل میں اترگئی ہو‘ زائل کرے۔اس کو وضو،طہارت،غسل،حیض،نفاس،استحاضہ،نماز اور روزہ کے متعلق احکامات کی تعلیم دے۔علم کے بغیر عبادت کرنا ایسا ہی ہے جیسا کہ پانی کے اوپر لکھنا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ اللہ تعالیٰ کے اس قول:﴿یٰٓاَیھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْآ اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا﴾کی تفسیر یوں کرتے ہیں:
Flag Counter