Maktaba Wahhabi

180 - 372
اسلامی حقو ق زوجین کا،غیراسلامی حقوق زوجین سے تقابل یہ بات واضح ہے کہ کسی چیز کی پہچان اوراندازہ اس وقت ہوتاہے۔جب اسکی نظیریں اورمثالیں اسکی مخالف صنف سے پیش کی جائیں جسطرح عربی زبان کاقاعدہ ہے کہ’’تعرف الأشیاء بإضدادھا‘‘یاولغیرہا تعرف الأشیاء ‘‘۱؎ کہ چیزوں کی پہچان ان کی ضدسے ہواکرتی ہے۔اسی اص ول کے پیش نظر ہم نے پہلے اسلامی حقوق زوجین پیش کیے اورفصل ہذا میں غیراسلامی حقوق الزوجین کوپیش کرکے ان کااسلامی حقوق زوجین سے تقابل پیش کریں گے تاکہ یہ بات کسی سے پنہاں نہ رہے کہ اسلام کے اصول وضوابط کے اساسی احکام میں غائت درجہ کااعتدال اورتوازن پایاجاتاہے۔ایک طرف اخلاق کا ایک بلندترین نصب العین پیش نظررکھتاہے۔دوسری طرف انسانی فطرت کی کمزوریوں کوبھی نظراندازنہیں کرتا۔ایک طرف وہ تمدنی اوراجتماعی مصالح کی رعایت ملحوظ رکھتاہے تو دوسری طرف افراد کے حقوق بھی پامال نہیں ہونے دیتا۔حتی کہ ایسے امکانات کوبھی نظرسے اوجھل نہیں ہونے دیتا جن کاکسی وقت عالم واقع میں آنامتوقع ہے۔الغرض اسلام کے تمام قوانین اورضوابط ایسے معتدل ہیں جن میں سے کوئی قاعدہ اورکوئی حکم افراط وتفریط کی جانب مائل نہیں ہے۔قانون سازی میں جتنے مختلف پہلووں کالحاظ رکھناضروری ہے۔ان سب کااسلام میں نظری حیثیت ہی سے نہیں بلکہ عملا پورا پورا لحاظ کیاگیاہے۔اوران کے درمیان ایساصحیح توازن قائم کیاگیاہے۔کہ کہیں کسی ایک طرف نامناسب میلان اورکسی دوسرے پہلوسے غیرمنصفانہ اغراض نظرنہیں آتا۔یہی وجہ ہے آج چودہ سوبرس سے اسلام کے قانون اورضابطے مختلف زمانوں میں اورمختلف تمدنی حالات میں اورمختلف علمی مراتب اورمزاحی کیفیات رکھنے والی قوموں میں رائج رہے ہیں۔اورانہیں کسی شخص یااجتماعی تجربے نے غلط یاقابل ترمیم نہیں پایایہی نہیں بلکہ انسانی فکر،باوجودسعی بلیغ کے،اس کی کسی چیزکاایسابدل تجویزکرنے میں کامیاب نہ ہوسکی جواعتدال و توازن اورتناسب میں اس کے لگ بھگ پہنچتاہو۔ یہ کیفیت جواسلامی اصولوں اورقوانین میں پائی جاتی ہے۔صرف اورصرف اسی حکمت وبصیرت کاہی نتیجہ ہوسکتی ہے۔انسان اپنی لازمی تعزیرات اوراپنی فطری محدود دیتوں کے ساتھ کبھی اس پرقادر نہیں ہوسکتاکہ کسی مسئلے کے تمام پہلوؤں کااحاطہ کرے۔حال ومستقبل پریکساں نظررکھے۔مابالفعل اورمابالقوۃ پرایک ساتھ نگاہ ڈالے،خود اپنی اوراپنے تمام ابنائے نوع کی فطرت کے چھپے اورظاہرخصائص کاپوراپورا لحاظ کرے اپنے ماحول کے اثرات سے بالکل آزاد ہوجائے اوراپنے جذبات اورطبعی رجحانات اورعقلی کوتاہیوں اورعلمی نارسائیوں سے پاک ہوکر کوئی ایساقائدہ وضع کرسکے جوہر حال،ہر زمانے اورہر ضرورت پرٹھیک ٹھیک عدل ومناسبت کے ساتھ منطبق ہوسکتاہو۔یہی وجہ ہے کہ جتنے اصول وضوابط اورقوانین انسانی فکر پرمبنی ہوتے ہیں۔ان میں صحیح توازن نہیں ہوتالیکن نظریات میں بے اعتدالی ہوتی ہے۔کہیں انسانی فطرت کے مختلف پہلووں کی رعائت میں کوتاہی کی جاتی ہے کہیں اشخاص کے حقوق اور واجبات متعین کرنے میں عدل نہیں ہوتا،کہیں فرد اور جماعت کے درمیان حقوق اور حدود کی تقسیم میں بے انصافی ہوتی ہے۔گویا غیر اسلامی حقوق زوجین جوانسانی فکرو ذہن کی کاوش اور تخلیق ہیں یہ انسانی تخلیق ہونے کی بناء پراپنے اندربہت سی خامیوں اورنقائص کااحاطہ کیے ہوئے ہوتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ انسان یاتوہمیشہ ان میں ترمیم کرنے کے درپے رہتاہے یاان کامتبع رہ کرعملاًان کی پابندی سے آزادہونے کی خواہش کرتاہے۔اوراسلام اپنے قواعدوضوابط اورقوانین کافطری،فکری،عقلی،ذہنی اور
Flag Counter