Maktaba Wahhabi

206 - 372
’حقوق اولاد‘ کی دینی ضرورت و فرضیت بچے ہماری زندگی کے شگفتہ پھول اور ہمارے مستقبل کی روشن امیدیں اور ہماری آنکھوں کا نور ہیں اس لیے ہم پر فرض ہے کہ وہ جب دنیا میں آئیں تو انہیں بخوشی قبول کیا جائے خواہ بیٹی ہو یا بیٹا ہو گویا ذکر و انث کا اختیار اللہ کے پاس ہے فرمان باری تعالیٰ ہے ﴿لِلّٰہِ مُلْکُ السَّمٰوٰاتِ وَالْاَرْضِ یَخْلُقُ مَایَشَائُ یَھَبُ لِمَنْ یَّشَائُ اِنَاثًا وَّ یَھَبُ لِمَنْ یَّشَائُ الذَّکُوْر اَوْ یُزَوِّجُھُمْ ذُکْرَاْنًا وَّ اِنَاثًا یَجْعَلُ مَنْ یَّشَائُ عَقِیْمًا اِنَّہٗ عَلِیْمٌ قَدِیْرٌ﴾۳۱؎ ’’اللہ زمین و آسمان کی بادشاہی کا مالک ہے،جو کچھ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے،جسے چاہتا ہے لڑکیاں دیتا ہے،جسے چاہتا ہے لڑکے دیتا ہے،جسے چاہتا ہے لڑکے اور لڑکیاں ملا جلا کر دیتا ہے،اور جسے چاہتا ہے بانجھ کر دیتا ہے وہ سب کچھ جانتا ہے اور ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘ اور بعض لوگ بیٹی پیدا ہونے پر اولاً تو کئی کئی دن گھر سے باہر قدم نہیں نکالتے اور باہر ضرورت کے لیے نکلنا پڑ جائے تو لوگوں سے چھپتے پھرتے ہیں اسی بات کو اللہ تعالیٰ اس انداز میں بیان کرتے ہیں۔ارشاد ہوتا ہے: ﴿وَاِذَا بُشِّرَ اَحَدُکُمْ بِالْاُنْثٰی ظَلَّ وَجْھَہٗ مُسْوَدَّا وَ ھُوَ کَظِیْمٍ یَتَوَارٰی مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوْئِ مَابُشِّرَ بِہٖ ﴾۳۲؎ ’’جب ان میں سے کسی کو بیٹی کے پیدا ہونے کی خوشخبری دی جاتی ہے تو اس کے چہرے پر کلونس چھا جاتی ہے اور وہ بس خون کا ساگھونٹ پی کر رہ جاتا ہے۔لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے کہ اس بری خبر کے بعد کیا لوگوں کو منہ دکھائے۔‘‘ بسا اوقات تو ایسے ہوتا ہے لڑکی تو درکنار لڑکوں کو املاق و افلاس کے ڈر سے قتل کر دیا جاتا ہے اول تو الڑا ساونڈ سے جنین کے موجود ہونے کا پتہ لگا کر اسی حالت میں قتل کر دیا جاتا ہے حالانکہ والدین پر اولاد کا حق ہے کہ اللہ کی دی ہوئی عیش و حیات کو بسر کرنے میں کوئی رکاوٹ حائل نہ کریں اگر والدین او لاد کا یہ حق زندگی فقر و املاک اور افلاس کے خوف سے پا مال کریں گے جن حقوق کو پورا کرنا فرضیت کا درجہ رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے ہاں مجرم ٹھہریں گے اور ذلت و رسوائی ان کا مقدر ٹھہرے گی وہ اس لیے کہ ایک تو انہوں نے اللہ کے کیے ہوئے وعدے کو ٹھکرا دیا کہ﴿وَمَامِنْ دَآبَّۃٍ اِلَّا عَلَی اللّٰہِ رِزْقُھَا﴾کہ ہر جاندار کا رزق اللہ کے ذمہ ہے اور دوسرا یہ کہ ناحق قتل کرکے جرم عظیم کا ارتکاب کیا اور تیسرا یہ کہ اپنی خونی اولاد سے حسن سلوک روانہ رکھا! اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿قَدْ خَسِرَ الَّذِیْنَ قَتَلُوْا اَوْلَادِ ھِمْ سَفَہًا بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّ حَرَّمُوْا عَلَی مَارَزَقَھُمُ اللّٰہُ افْتِرَائً ا عَلَی اللّٰہِ قَدْ ضَلُّوْا وَمَا کَانُوْا مُھْتَدِیْن ﴾۳۳؎ ’’ یقیناً خسارے میں پڑ گئے وہ لوگ جنہوں نے اپنی اولاد کو جہالت و نادانی کی بنا پر قتل کیا اور اللہ کے دیے ہوئے رزق کو اللہ پر افترا پروازی کر کے حرام ٹھیرا لیا،یقیناً وہ بھٹک گئے اور ہر گز وہ راہ راست پانے والوں میں سے نہ تھے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَلَاتَقْتُلُوْا اَوْلَادَکُمْ خَشْیَۃَ اِمْلَاق نَحْنُ نَرْزُقُھُمْ وَاِیَّاکُمْ اِنْ قَتْلَھُمْ کَانَ خِطْأًکَبِیْرًا﴾۳۴؎
Flag Counter