Maktaba Wahhabi

261 - 372
والدین کا حق مشاورت پیدائش سے بلوغت تک اولادکی کفالت وحضانت،تعلیم و تربیت اور دیگرضروریات زندگی کی فراہمی والدین کے فرائض میں شامل ہے بلوغت تک کی عمر چونکہ نا پختگی اور محتاجی کی ہوتی ہے اور بلوغت کے بعد انسان کو اپنے شریک حیاۃ کی تلاش ہوتی ہے تو اس کے انتخاب اور اس بارے میں مختلف لوگوں سے مشاورت کرتا ہے لہذا اس سلسلے میں اگر کسی کا مشورہ پر خلوص اور جلب منفعت اوردفع مضرت کا حامل ہوسکتا ہے تو وہ والدین کا ہی ہوسکتا ہے اس لیے کہ والدین کی اولاد سے محبت،الفت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ انہیں کسی قسم کے نقصان کا سامنا نہ کرنا پڑے۔اور وہ اپنی اولاد کو اپنی زندگی کے تجربات کی روشنی میں مشورہ دیتے ہیں جو انسان کی کامیاب زندگی کا سبب بنتا ہے اور دوسری طرف والدین کو یہ حق حاصل ہے کہ اولاد ان کے مشورے کے بغیرقدم نہ اٹھائیں۔البتہ زندگی کے دو تین کاموں میں تو والدین سے مشورہ انتہائی ضروری ہے مثلا نکاح و طلاق اور جہاد وغیرہ جیسے مسائل میں جو خاندانی سسٹم میں بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔جن کی تفصیل بالترتیب حسب ذیل ہے۔ شادی اولاد بلوغت کے بعد سب سے بنیادی مسئلہ شادی ہے جوانسان کی فطری ضرورت ہونے کے ساتھ انسان کی جنسی تسکین کا باعث بھی ہے گویا انسان کی یہ عمر والدین اور اولاد میں شادی کے معاملے میں اختلاف کوپیدا کرتی ہے۔اور اس اختلاف کی بنیادی طور پر دو وجوہات ہیں۔ ایک وجہ توخود والدین کی طرف سے پیدا ہوتی ہے وہ یہ کہ بعض والدین اپنے ذاتی اغراض و مقاصد اور خاندانی عصبیت کو مدنظر رکھتے ہوئے بچوں کے لیے رشتے تلاش کرتے ہیں اور اس بات کو مدنظر نہیں رکھتے کہ بچے اب سن شعور اور حالات کو سمجھنے والے ہیں اور آئندہ زندگی بچوں نے خود ذمہ دار ہونے کی حیثیت سے گزارنی ہے چنانچہ جب ایسے والدین،اپنے مفاد کو اولاد کے مفادات پرترجیح دینے لگتے ہیں تو اولاد اور والدین کے درمیان جھگڑا اور اختلاف جنم لیتا ہے جتی کہ اگر اولاد والدین کی ضد سے شادی کربھی لے تو اکثر و بیشتر ایسی شادیاں کامیاب ہی نہیں ہوتیں۔اس لیے اگر لڑکے کی شادی کے موقع پر انسان ہونے کے ناطے والدین کے دل میں میل ہو تو انہیں فورا اس میل کو دور کر دینا چاہیے اس میں جہاں اللہ تعالیٰ رضامندی حاصل ہوگی۔وہاں خود ان اولاد کی بھی خوش ہوگی۔اور اپنے والدین کے لیے اولاد ہمیشہ دعا گو رہے گی۔ مذکورہ اختلاف کی دوسری وجہ،خود اولاد بنتی ہے وہ اس طرح کہ اگر اولاد کی صحیح اسلامی تربیت نہ ہو یا جوانی کے جذبات انہیں مدہوش کر رہے ہوں تو وہ اپنے مشفق والدین کو اپنا دشمن سمجھنے لگتے ہیں اور ان کی رضامندی کو اپنے لیے باعث ہلاکت سمجھتے ہیں گویا جذبات کی مغلوبیت اور تربیت کی کمی کی وجہ سے اولاد ضدی بن جاتی ہے اور اس سلسلے میں اپنی من مانی کرنا چاہتی ہے اور والدین سے اختلاف پیداہوجاتاہے۔حالانکہ والدین کا فیصلہ ہر حال میں ان کے حق میں بہتر ہوتا ہے ایسے موقع پر وہ بچے نقصان اٹھاتے ہیں جو والدین کا کہا نہیں مانتے۔ مقالہ نگار کے عزیز مراحل سے گزرے ہیں کہ اپنوں سے،والدین سے اختلاف کرتے ہوئے،اپنی من مانی کی تو والدین نے اس کی مرضی کے مطابق شادی کردی،ابھی چند ماہ ہی گزرے تھے کہ میاں بیوی کے درمیان اختلاف نمایاں ہونے لگا تو وہ پہلے اپنے والدین کو ناراض کر بیٹھا تھا اور پھر اپنی بیوی کو چھوڑ بیٹھا۔گویا آخرت میں تو والدین کی نافرمانی کا خسارہ لیے ہی ہے لیکن دنیا میں بھی بے انتہا خسارہ مول لیا۔ اگر مذکورہ وجوہات کوبنظر عمیق دیکھا جائے تو جو حقیقت کھل کر سامنے آئے گی وہ یہ ہے،اگر اولاد کی شادی کا مسئلہ والدین اور اولاد کے درمیان مفاہمت اور مشاورت سے حل کیا جائے تواس کی نظیر نہیں مل سکتی۔اولاد بھی اپنی خواہشات اور مافی ضمیر کو والدین کے
Flag Counter