Maktaba Wahhabi

338 - 372
خوشی کے مواقع پر تعاون و شراکت حصول اولاد اولاد نرینہ کا حصول نعمت عظمیٰ سے کم نہیں ہے۔یہ بات غیرمعمولی حقیقت کی حامل ہے کہ اولاد ایسا مال و متاع ہے جس کا متبادل دنیا میں کوئی سرمایہ نہیں۔دنیا کا جتنا چاہیں سرمایہ صرف کرلیں اور تمنا،آرزو اور خواہش یہ ہو اس کے بدلے ہمیں حقیقی بیٹا یااولاد نصیب ہوجائے،ناممکن ہے۔یہی وجہ ہے دنیا کی عظیم ترین ہستیاں انبیاء کرام اوراولیاء عظام مقصد ہذا کی خاطر خالق ارض و سما سے اپنے شباب سے شیب تک دست دراز ہوکر اور ساتھ ساتھ امید بحال رکھتے ہوئے دعائیں کرتے رہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے ان کی دعاؤں کی قدر کی تو پھر خالق کائنات کاادائیگی شکر کے لیے حمدوثنا کو اپنے دامن سے جُدا نہ ہونے دیا۔حضرت ابراہیم علیہ السلام،حضرت زکریا علیہ السلام،حضرت سلیمان علیہ السلام کا قرآن کریم نے بالتصریح ذکر فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿وَالَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَاھَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَ ذُرِّیَاتِنَا قُرَّۃَ أعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا﴾۵۳؎ ’’اور جو دعا کرتے رہتے ہیں کہ ہمارے رب ہمیں اپنی بیویوں سے اور اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطافرما اور ہمیں متقین کا امام بنادے۔‘‘ بچے کا عقیقہ اور اس میں خاندان کا تعاون و شراکت حضرت سلیمان بن عامر الضبی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ((مع الغلام عقیقۃ فاھر یقوا عنہ الدم و امیطوا عنہ الأذی)) ۵۴؎ ’’کہ غلام(بچے) کاعقیقہ کیا جائے اور اس کی طرف سے خون بہایاجائے اور اس سے گندگی دور کی جائے(یعنی اس کے بال اتار دیئے جائیں)‘‘ حدیث کی روشنی میں بچے کا ساتویں دن عقیقہ کرناچاہئے اور اس میں عزیز و اقارب کو دعوت دینی چاہئے اور اگر بچے کے والدین عقیقے کی استطاعت نہیں رکھتے تو پھر خاندان کو تعاون کرناچاہئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿وَتَعَاوَنُوْا عَلٰی الْبِرِّ وَالتَّقْویٰ وَلَاتَعَاوَنُوْا عَلٰی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ﴾۵۵؎ ’’اور نیکی اور تقوے کے کاموں میں تعاون کرو اوربُرائی اور زیادتی کے کاموں میں تعاون سے اجتناب کرو۔‘‘ بچے کی ولادت اور اس کے بعد اس کا عقیقہ ایک خوشی کا موقع ہے اور صرف خوشی کاموقع اور مقام مسرت ہی نہیں بلکہ عقیقہ ایک مستحب عمل ہے۔جس میں تعاون و شراکت بھی ایک مستحسن عمل کی حیثیت رکھتا ہے اور ویسے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ دعوت قبول کرنی چاہئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ((للمسلم علی المسلم ست باالمعروف یسلم علیہ اذا لقیہ ویحبیہ اذادعاہ....)) ۵۶؎ ’’ ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پرچھ حق ہیں۔جب وہ ملے تو سلام کرے اور جب وہ اس کو دعوت دے تو اسے قبول کرے۔‘‘
Flag Counter