Maktaba Wahhabi

344 - 372
اجتماعی میل جول کے محاسن 1۔اتفاق و اتحاد قائم رکھنا اتفاق و اتحادکو عربی زبان میں ’’اجتماع‘‘ کی اصطلاح سے یاد کیا جاتاہے جس کی اصل اور مادہ ’’جمع‘‘(ج،م،ع) ہے۔ ٭ ابن فارس لکھتے ہیں: ’’الجیم والمیم والعین،اصل واحد یدل علی تضام الشی یقال جمعت الشئ جمعا و تجمع القوم۔اجتمعوا من ھنا وھنا و اجتمع القوم،انضموا،وھو ضد تفرقوا‘‘۸۹؎ جیم،میم،عین تین حروف کو ملا کر ایک لفظ ’’جمع‘‘ بنتا ہے جوکہ واحد کا صیغہ ہے جو کسی چیز کے اجتماع پردلالت کرتا ہے کہا جاتا ہے،’’جمعت الشی جمعا‘‘ میں نے کسی چیز کو جمع کیا اور قوم جمع ہوگئی یعنی قوم کااجتماع ہوگیا چنانچہ اجتماع افتراق و انتشار اور تفرقہ کی ضد ہے۔ ٭ موسوعہ نضرۃ النعیم میں ہے: ’’وھو ان یلتقی المسلمون و ینضم بعضھم الی بعض ولا یتفرقوا‘‘۹۰؎ ’’مسلمانوں کا اتفاق و اتحاد اس طرح ہوجانا کہ ان کاہرفرد دوسرے فرد کے اتنا قریب ہوجائے کہ ان کے درمیان کسی قسم کا خلا اور خلیج باقی نہ رہے تو اسے شریعت اسلامیہ میں اجتماع کہتے ہیں۔‘‘ ٭ امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ان اللّٰہ تعالیٰ یامر بالالغۃ و ینھی عن الفرقۃ لان الفرقۃ ھلکۃ والجماعۃ نجاۃ‘‘ ۹۱؎ ’’اللہ تعالیٰ محبت و الفت اوراجتماعیت کا امر فرماتا ہے اور اختلاف و انتشار اور تفرقہ سے منع فرماتے ہیں کیونکہ اختلاف و انتشار ہلاک کردیتا ہے اور اجتماعیت اور اکٹھ میں فوز و فلاح ہے۔‘‘ قرآن کریم اتفاق و اتحاد کادرس دیتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہ جَمِیْعًا وَّلاَ تَفَرَّقُوْا﴾۹۲؎ ’’اللہ تعالیٰ کی رسی کو مضبوط سے تھامے رکھو اور فرقوں میں نہ تقسیم ہوجاؤ‘‘ 2۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌیَّدْعُوْنَ اِلٰی الْخَیْرِ…﴾۹۳؎ ’’تم میں سے ایک ایسی ضرور جماعت ہونی چاہئے جو خیر کی طرف دعوت دے۔‘‘ مذکورہ بالا دونوں آیات مبارکہ اتفاق و اتحاد اور اجتماعیت خاندان و امت کا واشگاف الفاظ میں اور منہ بولتا ثبوت ہیں۔ فرامین رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اتفاق و اتحاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے: ((فمن وصلہا وصلہ اللّٰہ ومن قطعہا قطعہ اللّٰہ)) ۹۴؎
Flag Counter