Maktaba Wahhabi

87 - 372
جس میں باہمی حقوق کی پاسداری اور والدین کی اطاعت و فرمانبرداری کو ہر شخص اپنے لئے لازم کرلے۔ ولی کی رضا مندی سے بے نیاز شادی کا جواز اسلام کے اس ہدف کے منافی ہے۔ جدید قانون نکاح کے سلسلے میں اسلامی تعلیمات بالکل واضح ہیں اس کے ساتھ ساتھ غیر مسلموں نے بھی نکاح میں ولی کی اہمیت کا اعتراف کیا ہے اور بعض اوقات اسے اپنے قانون میں جگہ دی ہے… نکاح میں ولی کے ضروری ہونے کے بارے میں عصری قانون کی معروف کتاب’ میں یوں موجود ہے: The legal power of contracting marriage.The parties must (1) have citizenship (2) not be within the prohibited degress ofrelationship; (3) have the consent of their parterfamilias. ۷۰؎ 2۔ولی کے لئے شرائط ولی کے لئے خیر خواہ اور مرشد ہونا ضروری ہے۔ ٭ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’لا نکاح إلا بشا ھدی عدل و ولي مرشد‘‘۷۱؎ ’’دو عادل گواہوں اور مرشد ولی کے بغیر کوئی نکاح نہیں۔‘‘ ٭ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ’’إذا کان ولي المرأۃ مضارا،فولت رجلا فانکحہا فنکاحہ جائز‘‘۷۲؎ ’’جب عورت کا ولی نقصان دینے والا ہو اور وہ کسی دورکے ولی کو مقرر کرکے نکاح کر لے تو جائز ہے‘‘ ٭ محدث عبداللہ امرتسری رحمہ اللہ اپنے فتاوٰی میں فرماتے ہیں: ’’حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کے اس قول سے معلوم ہوا کہ’’ نقصان دینے والا ولی نہیں رہ سکتا بلکہ اس وقت کوئی اور ولی ہوگا۔‘‘ ۱۰۲؎ لڑکی کے نکاح میں ولی کون ہوگا؟ قرآن کریم میں﴿وَأُو لُوْا الأَرْحَامِ بَعْضُھُمْ أَوْلٰی بِبَعْضٍ فِیْ کِتَابِ اللّٰہ ﴾’’رشتہ داروں میں سے بعض اللہ کی شریعت میں دوسرے رشتہ داروں کی نسبت زیادہ قریب ہیں‘‘ کی آیت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ولایت جو خاندان کے افراد میں پائی جاتی ہے اس میں ایک ترتیب ہے۔اور بقول حضرت علی ولایت کی ترتیب وہی ہے جو وراثت کی ہے۔جدید دور میں فقہ کے تقابلی مطالعہ کی کتاب الفقہ الاسلامی میں ولایت کی یہ ترتیب یوں نقل کی گئی ہے۔ ’’الأولیاء ودرجاتہم:الولایۃ علی النفس تثبت للأقرب فالأقرب من العصبات علی الترتیب التالی … ۱:البنوۃ(الأبناء ثم أبناء الأبناء )۲:الأبوۃ(الأباء ثم الأجداد)۳:الإخوۃ(الإخوۃ ثم أبناء الإخوۃ)۴:
Flag Counter