Maktaba Wahhabi

24 - 83
کے خلاف قانون صادر ہونا آئین کی خلاف ورزی ہے۔مگر کیا وجہ ہے کہ جمہوری اسلام پسند حضرات ان ’’اسلامی دفعات‘‘ کے سب حوالے ان پڑھ عوام کے سامنے تو خوب دیتے ہیں مگر کسی کو یہ ہمت نہیں پڑتی کہ ان حوالوں کو لے کر عدالتوں میں جائے اور خلاف اسلام قوانین کو کالعدم کرالاے؟اب بھی اگر کسی کو یہ زعم ہے تو وہ اس ’’آئینی خلاف ورزی ‘‘کو چیلنج کر سکتا ہے سنا ہے عدالتیں آج کل آئین کی بالا دستی قائم کرنے پر تلی ہوئی ہیں! چوتھی بات یہ ہے کہ اگر یہ فرض کر بھی لیا جائے کہ اس شق سے خلاف اسلام قانون کا راستہ بند ہوگیا ہے تو کیا خلاف اسلام دستور یا دستوری ترمیم کی بابت بھی کوئی ایسا بندوبست موجود ہے؟چلئے قانون کی حدتک تو یہ مذاق کر لیاگیا آئین پر تو ازراہ مذاق بھی خلاف اسلام ہونے کی صورت میں کوئی پابندی نہیں۔اب جب یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ نظام پاکستان،پارلیمنٹ کو دو تہائی اکثریت سے کسی بھی بالا تر سند کے بغیر آئین میں اضافہ یا ترمیم کا مطلق العنان اختیار تفویض کرتا ہے(اور سب قوانین ایسے اختیار کے استعمال کی صورت میں بیک جنبش قلم تبدیل بھی ہوسکتے ہیں اور منسوخ بھی) تو اس حقیقت سے کون قانون دان انکار کرسکتا ہے کہ پاکستان کے چھوٹے خدا دو تہائی اکثریت سے حاکم اعلی ہی کو معزول کرنے کا پورا پورا اختیار رکھتے ہیں ؟اس بات کو جھٹلانا ممکن نہیں کہ آئین کے آرٹیکل 238کی رو سے پارلیمنٹ کو آئین میں اضافہ و ترمیم کا جو مطلق العنان اختیار حاصل ہے۔حاکم اعلی کی معزولی بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔یوں اخلاقاً وہ اس اختیار کو نہ برتے تو یہ اس کی مہربانی ورنہ اسے اس کا دستوری طور پر پورا حق حاصل ہے اسلامی قوانین پر خوش ہونے والے یہ تو بتائیں کہ ہندومت اسلام کب سے بنا ہے کہ دیوتاؤں کے تیور بدلنے پر آئیں تو برائے نام منصب سے بھی مہا دیوتا کی چھٹی کروا دیں ؟ شرعی عدالت کا ڈھونگ دستور میں وفاقی شرعی عدالت کو یہ اختیار دیاگیا ہے کہ وہ خلاف اسلام قوانین کا جائزہ لے اور ان کو
Flag Counter