Maktaba Wahhabi

47 - 83
نفاذ بھی جن کو انسان نے اپنے ما بین مقرر کر لیتے ہیں اور ان کا اطلاق زندگی موت کے مسائل،مالی معاملات اور انسانی شرم گاہوں کی حلت وحرمت تک پر ہوتا ہے اور حدود کا قیام اور سود،زنا وشراب ایسے محرمات کی تحریم کا بطلان ہوتا ہے کیونکہ یہ قوانین(ان میں سے جسے چاہیں) حلال کر کے نافذ کرنے اور کروانے والوں کے لیے قانونی چھتری فراہم کرتے ہیں۔خود یہ قوانین طاغوت ہیں،ان کے بنانے والے طاغوت ہیں او ران کو ترویج دینے والے طاغوت ہیں،یہی حکم عقلِ انسانی کی طبع زادہر کتاب کا ہو گا جو رسول برحق صلی اللہ علیہ وسلم کی آوردہ حق سے بندوں کو پھیرنے کا سبب بنے چاہے وہ قصداَ ہو یا بغیر قصد کے‘ اور اسے مقرر کرنے والا طاغوت ہو گا۔‘‘(فتح المجید: صفحہ 387) بقول سید قطب رحمہ اللہ: ’’طاغوت ہر وہ سلطنت ہے جس نے اپنے وجود کے لیے اللہ کی سلطنت سے پروانہ نہ لے رکھا ہو اور نہ اس کے حکم پر قائم ہو نیز ہر وہ قانون طاغوت ہے جو الل کی شریعت سے نہ لیا گیا ہو اورہر وہ سرکشی جو حق سے تجاوز کر جائے طاغوت کہلاتی ہے۔پھر جو سرکشی اللہ کے حق الوہیت وحاکمیت پر ہو وہ تو طاغوت کی بدترین اور سنگین ترین شکل ہوئی اور ’’لفظا‘‘ و’’معنا‘‘ وہی طاغوت کے اطلاق کی سب سے زیادہ مستحق بھی۔‘‘(فی ظلا القرآن عربی: 1/292) مولانا مودودی رحمہ اللہ کی زبان میں: ’’طاغوت لغت کے اعتبار سے ہر اس شخص کو کہا جائے گا جو اپنے جائز حق تجاوز کر گیا ہو قرآن کی اصطلاح میں طاغوت سے مراد وہ بندہ ہے جو بندگی کی حد سے تجاوز کر کے خود آقائی وخداوندی کا دم
Flag Counter