Maktaba Wahhabi

48 - 83
بھرے اور خدا کے بندوں سے اپنی بندگی کرائے۔خدا کے مقابلے میں ایک بندے کی سرکشی کے تین مرتبے ہیں پہلا مرتبہ یہ ہے کہ بندہ اصولاً اس کی فرمانبرداری ہی کو حق مانے‘ مگر عملاً اس کے احکام کی خلاف ورزی کرے اس کا نام فسق ہے۔دوسرا مرتبہ یہ ہے کہ وہ اس کی فرمانبرداری سے اصولاً منحرف ہو کر یا تو خود مختار بن جائے یا اس کے سوار کسی اور کی بندگی کرنے لگے۔یہ کفر ہے۔تیسرا مرتبہ یہ ہے کہ وہ مالک سے باغی ہو رکر اس ملک اور اس کی رعیت میں خود اپنا حکم چلانے لگے اس آخری مرتبے پر جو بندہ پہنچ جائے اسی کا نام طاغوت ہےاور کوئی شخص صحیح معنوں میں اللہ کا مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اس طاغوت کا منکر نہ ہو۔‘‘(تفہیم القرآن: 1/196) دوسری جگہ مولانا مودودی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’یہاں صریح طور پر ’’طاغوت‘‘ سے مراد وہ حاکم ہے جو قانونِ الٰہی کے سوا،کسی دوسرے قانون کے مطابق فیصلہ کرتا ہو اور وہ نظامِ عدالت ہے جو نہ تو اللہ کے اقتدارِ اعلیٰ کا مطیع ہو اور نہ اللہ کی کتاب کو آخری سند مانتا ہو۔لہٰذا یہ آیت اس معنی میں بالکل صاف ہے کہ جو عدالت طاغوت کی حیثیت رکھتی ہو اس کے پاس اپنے معاملات فیصلے کے لیے لے جانا ایمان کے منافی ہے اور خدا اور اس کی کتاب پر ایمان لانے کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ آدمی ایسی عدالت کو جائز عدالت تسلیم کرنے سے انکار کر دے۔قرآن کی روسے اللہ پر ایمان اور طاغوت سے کفر دونوں لازم وملزوم ہیں اور خدا اور طاغوت دونوں کے آگے بیک وقت جھکنا عین منافقت ہے۔‘‘(تفہیم القرآن: 1/366) بعض شبہات کا ازالہ 1۔ طاغوت کیا صرف غیر اسلامی قانون پاس کرنے والے ارکان ہیں؟ طاغوت صرف وہی ارکان نہیں جو غیر اسلامی قوانین پاس کرتے ہیں۔طاغوت کی تعریف سے لاعلمی کی بنا پر یہ غلط فہمی ذہنوں میں پرورش پا گئی ہے کہ غیر اسلامی قانون سازی میں شریک نہ ہونے والے ارکان،یا کسی قانونی بل کے پاس ہونے کے وقت ایوان سے غیر حاضر رہنے والے ارکان
Flag Counter