Maktaba Wahhabi

50 - 83
2۔ ارکان پارلیمنٹ کی انفرادی حیثیت بعض لوگ ارکان پارلیمنٹ کو اجتماعی حیثیت میں تو طاغو تسلیم کرتے ہیں مگر کسی رکن کو انفرادی حیثیت میں یہ لقب دینا گوار نہیں کرتے۔ فقہ اسلامی کا ایک معروف اصول ہے کہ جرم کا کوئی واقعہ ایک آدمی کے ہاتھوں سرزد ہو یا متعدد اشخاص کے تعاون سے رونما ہو،شرعاً ان سب کا ایک ہی حکم ہو گا۔تعدد اشخاص کی صورت میں فرداً فرداً ایسے تمام لوگوں پر وہ فرد جرم عائد ہو گی جو انفرادی جرم کی صورت میں اکیلے آدمی پر عائد ہوتی ہو۔جناب عمر رضی اللہ عنہ نے شریعت کا یہ اصول یوں بیان فرمایا تھا: واللّٰه لو تمالا علیہ اھل صنعاء لقتلتھم جمیعا(التشریع الجنائی لعبد القادر عودۃ 40:2) ’’یہ(قتل کا جرم) اگر سب اہل صنعاء نے مل کر کیا ہوتا تو میں ان سب پر ہی قصاص کا حکم لاگو کرتا۔‘‘ لہٰذا یہ کوئی دلیل نہیں کہ خدائی اختیارات چرا کر متعدد انسانوں میں تقسیم کر دیئے جائیں تو انفرادی حیثیت میں سبھی اس کے شرعی حکم کی زد میں آنے سے بچ رہیں گے۔ 3۔ دستور کے اسلامی حصہ کو ہی مانا جائے تو! دستور کی شرکیات اور انسانوں کے خدائی اختیارات کی توجیہہ مشکل ہو جائے تو بعض دیندار حضرات کی طرف سے یہ جواب ملتا ہے کہ ’’ہم دستور کے صرف اسلامی حصہ کو مانتے ہیں،باقی اس کے غیر اسلامی حصہ کو ہم بھی تسلیم نہیں کرتے۔‘‘ اولاً: اس چیز کو کیا کہتے ہیں جو آپ کے بقول اسلامی اور غیر اسلامی کا ملغوبہ ہے؟ ذرا واضح الفاظ میں،اس اسلامی حصہ کی اگر کچھ حقیقت فرض بھی کر لی جائے تو بھی یہ کہا جائے گا کہ یہ دستور غیر اللہ کے حق کے ساتھ اللہ کا حق تسلیم کرتا ہے۔بتائیے شرک کیا ہوتا ہے؟ ثانیاً: کسی سے دریافت کر لیجئے کہ آئین جو نظام پاکستان کی مستند کتاب ہے کہاں سے شروع ہوتا ہے اور کہا پہ ختم،کون نہیں جانتا کہ جس
Flag Counter