Maktaba Wahhabi

78 - 83
حد تک تو زیر بحث ہو سکتی ہے اس سے حلال و حرام تبدیل نہیں ہوا کرتے بلکہ اس صورت میں بیان حق ناگزیر تر ہو جاتا ہے۔ پھر تیسری بات یہ ہے کہ عوام الناس پر کسی حکم کا اطلاق تو زیر بحث ہی نہیں لیکن اگر ایسی لاعلمی یا لاپرواہی حجت بھی ہو جایا کرے تو دنیا میں کونسی برائی برائی رہ جائے گی؟ ووٹ دینے کا مسئلہ تو پھر چھوٹا ہو گا یہ جو مزارات پر انسانوں کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ شرک بواح کرتے نظر آتے ہیں ان میں ایسے کتنے ہوں گے جو اپنے فعل کا پورا مطلب جانتے ہیں؟ ہندوستان کے وہ ’’مسلمان‘‘ جو تاج برطانیہ کے لئے پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں اپنے خون کے نذرانے پیش کرتے رہے ہیں وہ کس بصیرت کی بناء پر شیطان کی راہمیں مرتے رہے ہیں؟ عوام الناس کا سمجھنا یا نہ سمجھنا اگر حق و باطل میں تمیز کی کسوٹی تسلیم کر لیا جائے پھر تو اللہ کی طرف سے آئی کتاب کا کوئی اور ہی کام تجویز کرنا پڑے گا۔ اسمبلی میں کوئی اچھا آدمی نہیں رہے گا اگرچہ ہمیں اندازہ ہے کہ عام لوگوں پر ہماری اس دعوت کا کتنا اثر ہو سکتا ہے تاہم اگر دین خالص کی بصیرت کے حاملین کی اتنی تعداد ہو جائے جو انتخابات کے نتائج پر اس حد تک اثر انداز ہو سکے کہ ان کے ووٹ بقول مولانا مودودی ’’یہ اندیشہ اکثر پیش کیا جاتا ہے کہ اگر ہم اسمبلیوں سے پرہیز کریں تو ان پر غیر مسلم قابض ہو کر نظام حکومت کے تنہا مالک و متصرف بن جائیں گے اور اگر نظام باطل کے کل پرزے ہم نہ بنیں تو دوسرے بن جائیں گے اور اس طرح زندگی کے سارے کاروبار پر قابض ہو کر وہ ہماری ہستی ہی کو ختم کر دیں گے،حتی کہ اسلام کا نام لینے والے باقی ہی نہ رہیں گے کہ تم ان سے خطاب کر سکو۔لیکن واقعہ یہ ہے کہ اندیشے جتنے ہولناک ہیں اس سے زیادہ خام خیالی کے نمونے ہیں اگر ہم نے یہ کہا ہوتا کہ صرف ایک منفی پالیسی اختیار کر رکے مسلمان زندگی کا سارا کاروبار ہی چھوڑ دیں اور گوشوں میں جا بیٹھیں تو یہ اندیشے ضرور کسی حقیقت پر مبنی ہوتے … لیکن ہم اس نفی کے ساتھ ساتھ ایک اثبات بھی تو پیش کرتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ مسلمان اس نظام کے ساتھ سازگاری کرنے کی بجائے دنیا
Flag Counter