Maktaba Wahhabi

151 - 692
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے اگر عشاء کی نماز باجماعت رہ جاتی تو رات کا اکثرحصہ عبادت میں گزار دیتے۔[1] سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے:اللہ ان لوگوں پر رحم کرے جنھیں لوگ مریض سمجھتے ہیں،حالانکہ وہ بیمار نہیں۔[2] یہ چندمجاہدئہ نفس کے متعلقہ آثار تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:’(خَیْرُ النَّاسِ)مَنْ طَالَ عُمْرُہُ وَ حَسُنَ عَمَلُہُ‘ ’’(انسانوں میں سب سے اچھا وہ ہے)جس کی عمر لمبی اور عمل اچھے ہوں۔‘‘ [3] باب:6 حقوق العباد والدین کے حقوق: ہر مسلمان اپنے ذمے والدین کے حقوق تسلیم کرتا ہے،ان کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آتا اور ان کی اطاعت کرنے اور ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کو ضروری جانتا ہے۔محض اس وجہ سے نہیں کہ وہ اس کی پیدائش کا باعث تھے اور انھوں نے بچپن میں اس کی دیکھ بھال اور خدمت کی ہے بلکہ اس لیے بھی کہ اللہ جل مجدہ نے ان کی فرماں برداری ضروری قرار دی ہے اور ان کے حقوق کو اپنے حقوق کے ساتھ بیان کیا ہے۔چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ( وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ۚ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُل لَّهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا(٢٣﴾وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا﴾ ’’اور تیرے رب نے فیصلہ کیا ہے کہ تم صرف اسی کی عبادت کرو اور والدین کے ساتھ احسان کرو۔اگر ان دونوں میں سے ایک یا دونوں تیرے پاس بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انھیں اُف تک نہ کہہ اور نہ انھیں جھڑک اور ان کے ساتھ نرمی سے(اچھی)بات کر اور ان کے لیے محبت اور نرمی کا پہلو جھکائے رکھ اور(ان کے لیے دعا کرتے ہوئے)یہ کہہ کہ ’’اے رب!ان پر رحم کر جس طرح انھوں نے بچپن میں مجھے پالا اور میری تربیت کی۔‘‘[4] نیز اللہ سبحانہ نے فرمایا:﴿وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَىٰ وَهْنٍ وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيرُ﴾ ’’اور ہم نے انسان کو اس کے والدین کے بارے میں(اچھا سلوک کرنے کی)وصیت کی ہے اس کی ماں نے
Flag Counter