Maktaba Wahhabi

159 - 692
زوجیت کے تعلق نے اخوتِ ایمانی کے تعلق کو مزید بڑھایا ہے اور اس میں پختگی اور اعتماد پیدا کیا ہے۔ اسی وجہ سے خاوند اور بیوی دونوں خود کودو قالب یک جان سمجھتے ہیں۔پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ انسان اپنی ذات پر اعتماد نہ کرے اور اس کے لیے خیرخواہی کے جذبات نہ رکھے۔اپنے آپ سے خیانت کون کرتا ہے اور خود سے دھوکا کون کر سکتا ہے؟ 4. حقوقِ عامہ: باہمی معاملات میں توجہ اور نرمی سے کام لینا،چہرے کی شگفتگی،بات میں ادب و احترام،یہی وہ اچھی معاشرت ہے جس کا اللہ نے حکم دیا ہے:﴿وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ﴾’’اور عورتوں سے معروف طریقے کے ساتھ نباہ کرو۔‘‘ [1] اور یہی وہ اچھی وصیت ہے،جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کے بارے میں ارشاد فرمائی: ’وَاسْتَوْصُوا بِالنِّسَائِ خَیْرًا‘’’اور عورتوں کے لیے اچھی وصیت قبول کرو۔‘‘ [2] یہ مذکورہ بالا حقوق و آداب،خاوند اور بیوی میں مشترک ہیں،علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ کے فرمان میں مذکور ’’پختہ عہد‘‘ کی تعمیل میں بھی ان آداب و حقوق کا التزام کرنا دونوں کے لیے ضروری ہے،جیسا کہ قرآنِ پاک میں ہے:﴿وَكَيْفَ تَأْخُذُونَهُ وَقَدْ أَفْضَىٰ بَعْضُكُمْ إِلَىٰ بَعْضٍ وَأَخَذْنَ مِنكُم مِّيثَاقًا غَلِيظًا﴾’’اور(طلاق کی صورت میں)تم کس طرح ’’مہر‘‘ واپس لو گے،جبکہ ایک دوسرے تک تم پہنچ چکے ہو اور انھوں نے تم سے ’’پختہ عہد‘‘ لے لیا ہے۔‘‘ [3] نیز ارشادِ عالی ہے:﴿وَلَا تَنسَوُا الْفَضْلَ بَيْنَكُمْ ۚ إِنَّ اللّٰهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ﴾’’اور آپس میں بھلائی کرنے کو فراموش نہ کرنا،اللہ تمھارے سب کاموں کو دیکھ رہاہے۔‘‘[4] کچھ حقوق و آداب ان کے ایک دوسرے پر انفرادی ہیں۔جن کی تفصیل یہ ہے: بیوی کے حقوق: 1: خاوند معروف طریقے کے ساتھ عورت سے نباہ کرے،جیسا کہ اللہ نے حکم دیا ہے: ﴿وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ﴾’’اور ان(عورتوں)کے ساتھ دستور کے مطابق نباہ کرو۔‘‘ [5] یعنی جب کھانا کھائے تو اسے کھلائے،کپڑا پہنے تو اسے بھی پہنائے،اس کی طرف سے نافرمانی کا خطرہ محسوس کرے تو اللہ کے حکم کے مطابق گالی گلوچ اور برا بھلا کہے بغیر اسے سمجھائے اگر کہا مان لے تو فبہا،ورنہ بستر کی جدائی اختیار
Flag Counter