Maktaba Wahhabi

169 - 692
فائدہ کی دو باتیں:اول: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:((إِذَا سَمِعْتَ جِیرَانَکَ یَقُولُونَ:قَدْ أَحْسَنْتَ فَقَدْ أَحْسَنْتَ،وَ إِذَا سَمِعْتَہُمْ یَقُولُونَ:قَدْ أَسَأْتَ فَقَدْ أَسَأْتَ)) ’’جب تو اپنے ہمسایوں سے یہ سنے کہ تو نے اچھا کیا ہے تو یقینا تو نے اچھا کیا ہے اور جب تو انھیں یہ کہتے ہوئے سنے کہ تو نے برا کیا ہے تو واقعی تو نے برا کیا ہے۔‘‘ [1] اس حدیث کی روشنی میں ہر مسلمان اپنے بارے میں فیصلہ کر سکتا ہے کہ وہ اچھائی کر رہا ہے یا برائی۔ دوم:اگر کسی شخص کو برے ہمسائے کے ساتھ پالا پڑ جائے تو وہ صبر کرے،اس کا صبر کرنا اس سے خلاصی کا باعث بنے گا۔ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اپنے ہمسائے کی شکایت کی تو آپ نے اسے حکم دیا: ’اِذْہَبْ فَاصْبِرْ‘،فَأَتَاہُ مَرَّتَیْنِ أَوْ ثَلَاثًا،فَقَالَ:’اِذْہَبْ فَاطْرَحْ مَتَاعَکَ فِي الطَّرِیقِ‘،فَطَرَحَ مَتَاعَہٗ فِي الطَّرِیقِ،فَجَعَل النَّاسُ یَسْأَلُونَہٗ فَیُخْبِرُہُمْ خَبَرَہٗ،فَجَعَلَ النَّاسُ یَلْعَنُونَہٗ،فَعَلَ اللّٰہُ بِہِ وَ فَعَلَ وَ فَعَلَ،فَجَائَ إِلَیْہِ جَارُہٗ فَقَالَ لَہٗ:اِرْجِعْ لَا تَرَی مِنِّي شَیْئًا تَکْرَہُہٗ‘ ’’جاؤ اور صبر کرو۔‘‘ وہ پھر آپ کے پاس دو یا تین بار آیا تو آپ نے فرمایا:’’جا اپنا سامان راستے پر ڈال دے۔‘‘ چنانچہ اس نے اپنا مال متاع راستے پر ڈال دیا۔لوگ اس سے پوچھنے لگے(کہ کیا ہوا؟)تو اس نے انھیں اپنے ہمسائے کا سلوک بتایا۔تو لوگ اسے لعنت ملامت کرنے لگے۔اللہ اس کے ساتھ ایسے کرے اور ایسے کرے۔تو وہ ہمسایہ اس کے پاس آیا اور اس سے بولا:اپنے گھر میں واپس چلے جاؤ۔(آئندہ)میری طرف سے کوئی ناپسندیدہ سلوک نہیں دیکھو گے۔‘‘ [2] مسلمانوں کے حقوق: ہر مسلمان تسلیم کرتا ہے کہ مجھ پردوسرے مسلمان بھائیوں کے کچھ حقوق و آداب واجب ہیں اور وہ یہ بھی سمجھتا ہے کہ دراصل ان حقوق کی ادائیگی اللہ کی عبادت ہے اور اس کا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ بھی ہے،اس لیے کہ یہ حقوق و آداب حق تعالیٰ نے ہر مسلمان پر واجب کیے ہیں تاکہ وہ اپنے مسلمان بھائی کے لیے انھیں انجام دے تو یہ بلاشبہ اللہ ہی کی اطاعت و فرماں برداری ہے اور اس کا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔ ان آداب میں درج ذیل امور بھی شامل ہیں: 1: جب ملے تو گفتگو سے پہلے سلام کہے اور مصافحہ کرے،سلام کے الفاظ یہ ہیں:
Flag Counter