Maktaba Wahhabi

198 - 692
لہٰذااخوت میں تکلف اور تحفظ کی بساط لپٹی ہونی چاہیے ورنہ الفت کے بجائے منافرت پیدا ہو جائے گی،ایک روایت میں ہے:’أَنَا وَأَتْقِیَائُ أُمَّتِي بُرَآئُ مِنَ التَّکَلُّفِ‘ ’’میں اور میری امت کے متقی تکلف سے بری ہیں۔‘‘[1] ایک صالح زاہد کا مقولہ ہے:جس کا تکلف ساقط ہو جائے اس کی الفت اور دوستی میں دوام آجائے گا،جس کا بوجھ ہلکا ہو جائے،اس کی محبت پائیدار ہوجائے گی۔ اگر انس و اپنائیت کوپانا اور اجنبیت کا احساس دور کرنا ہے تو ایک بھائی دوسرے کے ساتھ ان چار امور میں شریک ہو جائے۔اس کے گھر کا کھانا کھانے میں،اس کے بیت الخلا کو استعمال کرنے میں اور اس کے ساتھ نماز پڑھنے میں اور اس کے پاس سونے میں۔ان کاموں کے نتیجہ میں اخوت مستحکم ہو گی اوروہ رعب،جس سے اجنبیت بڑھ رہی تھی،جاتا رہے گا۔اور(اس طرح)مانوسیت اور انبساط کا دور دورہ برقرار رہے گا۔ 8: اپنے ساتھی اور اس کی اولاد کے حق میں دعائے خیر کرے جو وہ اپنی ذات اور اپنی اولاد کے لیے کرتا رہتا ہے۔اس کا بھائی زندہ ہے یا فوت شدہ،حاضر ہے یا غائب اس کے حق میں دعائیں ضرور کرتا رہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’مَا مِنْ عَبْدٍ مُّسْلِمٍ یَّدْعُو لِأَخِیہِ بِظَھْرِ الْغَیْبِ إِلَّا قَالَ الْمَلَکُ:وَلَکَ بِمِثْلٍ‘ ’’کوئی مسلمان بندہ ایسا نہیں ہے جو اپنے(مسلمان)بھائی کی غیر حاضری میں اس کے لیے دعائے خیر کرتا ہو مگر فرشتہ(وہی دعا اس کے حق میں کرتے ہوئے)کہتا ہے اور تیرے لیے بھی اسی کے مثل حاصل ہو۔‘‘ [2] ایک زاہد کا مقولہ ہے:اس نیک شخص کے مانند کون ہو سکتا ہے؟ کہ جب اس کا بھائی مرتا ہے تو اس کے دیگر وارث،وراثت کی تقسیم میں لگے ہوتے ہیں اور ان پر اس کے ترکہ سے نفع اندوزی کی دھن سوار ہوتی ہے۔جبکہ یہ نیک شخص غمگین ہوتا ہے اور اسے صرف یہی فکرلاحق ہوتی ہے کہ میرے بھائی نے آگے کے لیے کیا جمع کیا ہے؟ اور اب وہ کس حال میں ہے؟ وہ رات کی تاریکیوں میں منوں مٹی کے نیچے مدفون بھائی کے لیے مغفرت کی دعائیں کر رہا ہوتا ہے۔ باب:8 آدابِ مجلس مسلمان کی ساری زندگی اسلامی ضوابط کے دائرے میں بسر ہوتی ہے اور ساتھیوں کے ساتھ اکٹھے بیٹھنے میں بھی وہ مندرجہ ذیل آداب کا التزام کرتا ہے:
Flag Counter