Maktaba Wahhabi

210 - 692
دے اور ایک مومن کے دل کو خوش کردے ورنہ ان کے لیے دعائے خیر کرے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’إِذَا دُعِيَ أَحَدُکُمْ فَلْیُجِبْ،فَإِنْ کَانَ صَائِمًا فَلْیُصَلِّ وَإِنْ کَانَ مُفْطِرًا فَلْیَطْعَمْ‘ ’’جب تم میں سے کسی کو کھانے کے لیے بلایا جائے تو وہ قبول کرے۔اگر(نفلی)روزے سے ہے تو دعا کر دے اور اگر روزہ دار نہیں تو کھانا کھائے۔‘‘ [1] آپ نے نفلی روزہ رکھنے والے ایک صحابی رضی اللہ عنہ سے،جسے دعوت ملی تھی،یہ فرمایا:’دَعَاکُمْ أَخُوکُمْ وَتَکَلَّفَ لَکُمْ‘ ’’تمھیں تمھارے بھائی نے دعوت دی ہے اورتکلیف اٹھائی ہے۔‘‘ پھر آپ نے اسے حکم دیا کہ افطار کرلو۔اور اگر تم چاہو تو اس کے بدلے میں کسی دوسرے دن روزہ رکھ لینا۔‘‘[2] 5: قبول دعوتِ طعام میں اپنے ساتھی مسلمان کی عزت و توقیر مطلوب ہونی چاہیے تاکہ ثواب ملے۔ حدیث میں ہے:’إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ،وَإِنَّمَا لِکُلِّ امْرِیئٍ مَّا نَوٰی‘ ’’اعمال نیتوں پر موقوف ہیں اور ہر شخص کو وہی کچھ ملتا ہے جس کی اس نے نیت کی۔‘‘ [3] حقیقت یہ ہے کہ اچھی نیت سے مباح کام کو اطاعت کا درجہ حاصل ہو جاتا ہے جس پر مومن اجر کا مستحق قرار پاتا ہے۔ دعوتِ طعام میں حاضر ہونے کے آداب: 1: میزبانوں کو زیادہ انتظار نہ کرائے،اس طرح وہ پریشان ہوں گے اور نہ وہاں پہنچنے میں جلدی کرے کہ تیاری سے پہلے اچانک پہنچنے سے انھیں تکلیف ہو گی۔ 2: اندرون خانہ آنے کے بعد تواضع و انکساری کے ساتھ بیٹھ جائے اور صاحبِ خانہ جس جگہ بٹھائے وہیں بیٹھے،اس سے الگ نہ ہو۔ 3: میزبان مہمان کے لیے کھانا جلد پیش کرے،اس لیے کہ اس میں اس کی عزت و توقیر ہو گی اور شارع نے مہمان کی عزت کرنے کا حکم دیا ہے: ((مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ فَلْیُکْرِمْ ضَیْفَہُ))’’جو اللہ اوریومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے مہمان کی عزت کرے۔‘‘ [4] 4: میزبان سب مہمانوں کے فارغ ہونے سے پہلے،بقیہ کھانا اٹھانے میں جلدی نہ کرے۔ 5: کفایت کے انداز سے کھانا پیش کرے،تھوڑی چیز پیش کرنا بے مروتی ہے اور زیادہ حاضر کرنا تصنع اور بناوٹ ہے،
Flag Counter