Maktaba Wahhabi

231 - 692
باب:1 حسنِ خلق عادت،انسانی نفس میں ایک راسخ کیفیت کا نام ہے۔اس سے اختیاری،اچھے یا برے کام سرزد ہوتے رہتے ہیں اور طبعی طور پر اس میں اچھی یا بری تربیت کا اثر ہوتا ہے۔اگر اس میں حق،نیکی،خیر اور خوبی کو ترجیح دینا اور اپنانا شامل کر دیا جائے اور یہ کام انسان کی طبیعت بن جائیں تو اچھے کام آسانی سے اور بغیر کسی تکلف ومشقت کے ہو جاتے ہیں۔یہی افعال حسنہ جو بلاتکلف ومشقت ہوتے رہتے ہیں،اخلاق حسنہ کہلاتے ہیں،مثلاً:حلم،حوصلہ،صبر،تحمل،بردباری،شجاعت و سخاوت اور عدل واحسان وغیرہ اور اسی طرح اخلاق فاضلہ،کمالات نفسانیہ اور دیگر اچھی عادات بھی اخلاقِ حسنہ میں شامل ہیں۔ اس کے برعکس اگر انسانی نفس کی مناسب تربیت وتہذیب نہ کی جائے اور اس میں پوشیدہ بھلائی کے عناصر کو اجاگر نہ کیا جائے،اس کی تربیت بری ہو جائے اور اسے قبیح چیز محبوب اور جمیل چیز ناپسند محسوس ہونے لگے اور پھر گھٹیا اور ناقص اقوال وافعال بلا تکلف اور بغیر مشقت کے اس سے صادر ہونے لگیں تو یہ بری عادات کہلاتی ہیں اور یہ اقوال وافعال جو اس سے صادر ہوئے،اخلاق سیئہ کہلاتے ہیں،مثلاً:خیانت،جھوٹ،بے صبری،لالچ،زیادتی،سختی،فحش گوئی وغیرہ۔اسلام نے اچھی عادات اپنانے اور مسلمانوں میں ان کی تربیت بڑھانے کا حکم دیا ہے،نیز بندے کے ذاتی فضائل اور اخلاق حسنہ کو اس کے ایمان واسلام کے اعتبار میں لازم ٹھہرایا ہے،مثلاً:اللہ رب العزت نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حسنِ خلق کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا:﴿وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ﴾’’اور یقینا تو بڑے اخلاق پر فائز ہے۔‘‘[1] اور آپ کو اچھے اخلاق وعادات کا حکم دیتے ہوئے فرمایا: ﴿ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ﴾’’بہترین طریقہ سے مدافعت کر،پھر(تو دیکھے گا کہ وہ شخص)جس کے اور تیرے درمیان عداوت ہے،گویا وہ(بھی تیرا)جگری دوست(بن گیا)ہے۔‘‘[2] نیز اچھی عادات کو حصول جنت کا سبب قرار دیتے ہوئے فرمایا:
Flag Counter