Maktaba Wahhabi

233 - 692
’إِنَّ الْعَبْدَ لَیَبْلُغُ بِحُسْنِ خُلُقِہِ عَظِیمَ دَرَجَاتِ الْآخِرَۃِ وَشَرَفَ الْمَنَازِلِ،وَإِنَّہُ لَضَعِیفُ الْعِبَادَۃِ‘ ’’بے شک بندہ اچھے اخلاق کے ذریعے سے آخرت کے درجات عالیہ اور اونچے مراتب حاصل کر لیتا ہے،حالانکہ وہ عبادت میں کمزور ہے۔‘‘[1] حسنِ خلق کے بارے میں برزگان سلف کی آراء: حسن بصری رحمہ اللہ کہتے ہیں:’’خندہ پیشانی،سخاوت اور کسی کو ایذا نہ دینا حسن خلق ہے:۔‘‘عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ کی رائے میں تین صفات کا نام حسن خلق ہے:’’حرام کاموں سے اجتناب،حلال کی تلاش اور عیال کے لیے خرچ وخوراک میں فراخی:۔‘‘ایک اور صاحب کا مقولہ ہے:’’اچھا خلق لوگوں کے قریب رہنا اور ان کے اموال سے دور رہنا ہے:۔‘‘ایک اور صاحب کا فرمان ہے:’’کسی کو ایذا نہ دینا اور مومن کی ضروریات میں اس کا ساتھ دینا،اچھی عادت ہے:۔‘‘ایک اور بزرگ فرماتے ہیں:’’تو اللہ کے سوا کسی اور کو اپنا مقصود و مطلوب بنانا ترک کر دے،یہی بہترین خصلت ہے۔‘‘ دراصل یہ سب باتیں حسن خلق کی جزوی تعریف ہیں،اس کی اصل تعریف وہی ہے جو ہم پہلے بیان کر آئے ہیں۔ اچھے اخلاق کے مالک کی جو صفات عام طور پر بیان کی جاتی ہیں وہ یہ ہیں: وہ حیا دار ہو،ایذا نہ دینے والا ہو،انتہائی نیک،سچا،کم گفتار،بہت عمل والاہو،جس کی لغزشیں کم ہوں،بے فائدہ کام نہ کرے،تعلقات جوڑنے والا،عزت و وقار کا مالک،صابر،قدر دان،راضی بہ رضا رہنے والا،حلیم الطبع،وفادار،خود کو رذائل سے بچانے والا،لعنت نہ کرنے والاہو،جو گالی گلوچ نہ کرے،چغل خوری نہ کرے،غیبت نہ کرے،عجلت پسند نہ ہو،کینہ وبغض نہ رکھے،بخیل نہ ہو،حسد نہ کرے،ہشاش بشاش رہنے والا ہو،اس کی محبت وبغض اور خوشی وناراضی محض اللہ کے لیے ہو۔ یہ تعریف بھی جزوی صفات کی حامل ہے،آئندہ اوراق میں ہم حسن خلق کی صفات کا الگ الگ تذکرہ کریں گے۔ان صفات عظیمہ کے مجموعہ سے’’حسن خلق‘‘کے اجزاء ترتیب پائیں گے اور اچھے اخلاق کے مالک کا ایک صفاتی تعین ہوسکے گا۔(ان شاء اللہ تعالیٰ) باب 2 صبر وتحمل ان عادات و صفات میں،جن سے ایک مسلمان اخلاق حسنہ میں کمال اور زینت حاصل کرتا ہے،اللہ تعالیٰ کی رضا
Flag Counter