Maktaba Wahhabi

244 - 692
بڑھتا ہی رہے گا۔ دراصل ایک سچے مسلمان کی پوری زندگی اللہ کے تعلق میں بسر ہوتی ہے،اس کی زبان ہمیشہ اس کے ذکر سے تروتازہ رہتی ہے اور دل اس کی محبت میں سرشار۔اگر وہ مظاہر قدرت پر نظر دوڑاتا ہے تو عبرت پکڑتا ہے اور اگر سورۂ مزمل اور فاطر کی مندرجہ ذیل آیات کے معانی پر غور وفکر کرتا ہے تو دنیا کو حقیر اور معیوب جانتا ہے اور اسے آخرت ہی کی فکر دامن گیر رہتی ہے۔ایسا انسان مال کی سخاوت میں خوشی کیوں نہیں محسوس کرے گا اور خیر کے جذبہ میں بڑھ چڑھ کر حصہ کیوں نہیں لے گا جبکہ وہ جانتا ہے کہ ہم جو کچھ آج کر رہے ہیں،کل آخرت میں ہمیں بہتر انداز میں مل جائے گا۔ارشاد ربانی ہے:﴿وَمَا تُقَدِّمُوا لِأَنفُسِكُم مِّنْ خَيْرٍ تَجِدُوهُ عِندَ اللّٰهِ هُوَ خَيْرًا﴾ ’’اور تم جو بھی اپنے لیے اچھا کام کرتے ہو،اللہ کے پاس اسے،اس سے بہتر اور اجر میں زیادہ پاؤ گے۔‘‘[1] ارشاد عالی ہے:﴿وَأَنفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً يَرْجُونَ تِجَارَةً لَّن تَبُورَ﴿٢٩﴾لِيُوَفِّيَهُمْ أُجُورَهُمْ وَيَزِيدَهُم مِّن فَضْلِهِ ۚ إِنَّهُ غَفُورٌ شَكُورٌ﴾ ’’اور جو کچھ ہم نے انھیں دیا ہے،وہ اس میں سے پوشیدہ اور ظاہر(دونوں طرح)خرچ کرتے ہیں،وہ ایک ایسی تجارت کے امیدوار ہیں جو کبھی تباہ نہیں ہو گی تاکہ وہ(اللہ)ان کو ان کے پورے پورے صلے دے اور اپنا مزید فضل عطا کرے۔یقینا وہ بخشنے والا،قدر دان ہے۔‘‘[2] اب ہم ایثار،بھلائی اور محبت کے پانچ واقعات کا ذکر کرتے ہیں تاکہ عقل وفہم والے انسان ان سے راہنمائی حاصل کریں: ایثار و بھلائی کی عملی مثالیں: 1:’’دار الندوہ‘‘میں قریش کی پارلیمینٹ کا اجلاس ہوا۔ابومرہ ملعون نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی ایک رائے پیش کی جسے مجلس نے بالاتفاق منظور کیا اور اس پر عملدرآمد کے لیے آپ کے گھر پر اچانک حملہ کرنے کا فیصلہ کر لیاتواللہ رب کریم نے پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہجرت کی اجازت دے دی اور آپ نے اس کے لیے تیاری شروع کر دی،طے یہ ہوا کہ حملہ آوروں کے حملوں کو جنھوں نے مکان سے نکلتے وقت آپ پر جھپٹنا تھا،ناکام بنایا جائے اور آپ کے بستر پر ایک نوجوان سو جائے تاکہ دشمن سمجھے کہ آپ ابھی سوئے ہوئے ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچیرے بھائی علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو اس ایثار وقربانی کے قابل پایا،چنانچہ آپ نے انھیں حکم دیا کہ آج رات میرے بستر پر تم نے سونا ہے۔علی رضی اللہ عنہ بلا تردد اس پر آمادہ ہو گئے،جبکہ یہ بھی امکان تھا کہ بوکھلایا ہوا دشمن جھپٹ پڑے اور تکا بوٹی کر دے۔نوعمری کے باوجود علی رضی اللہ عنہ نے سخاوت نفس کی ایک اعلیٰ مثال پیش کی۔[3] اس
Flag Counter