Maktaba Wahhabi

255 - 692
کپڑا انھیں دے دیا ہے۔تب ان کے دو کپڑے تیار ہوئے ہیں۔اس شخص نے کہا:اب فرمایئے ہم سنیں گے اور اطاعت کریں گے۔[1] نہ تو شرم کی وجہ سے وہ شخص ہی خاموش رہا اور نہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اعتراف میں شرم محسوس کی۔ مسلمان،مخلوق کے سامنے شرم وحیا کرتا ہے،اس لیے ان کے سامنے ننگا نہیں ہوتا اور نہ ان کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کرتا ہے اور نہ کسی کے احسان کا انکاری ہوتا ہے اور نہ برے انداز سے کسی کا سامنا کرتا ہے۔اسی طرح اپنے خالق کے آگے بھی وہ باحیا ہے کہ اس کی اطاعت وفرماں برداری اور نعمتوں کا شکر ادا کرنے میں کمی نہیں کرتا،اس لیے کہ وہ اللہ کی قدرت کاملہ اور علم تام کا اقراری ہے اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے اس قول پر ہرصاحبِ ایمان کا عمل ہے: ((اِسْتَحْیُوا مِنَ اللّٰہِ حَقَّ الْحَیَائِ،فَلْیَحْفَظِ الرَّأْسَ وَمَا وَعٰی،وَالْبَطْنَ وَمَا حَوٰی،وَلْیَذْکُرِ الْمَوْتَ وَالْبَلَائَ)) ’’اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے بارے میں پوری طرح باحیا رہو:انسان سر اور جو اس میں ہے،پیٹ اور جو اس میں ہے،کی حفاظت کرے(کوئی ناجائز چیز ان میں نہ آنے پائے)اور موت اور آزمائش کو یاد رکھے۔‘‘[2] اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:((اَللّٰہُ أَحَقُّ أَنْ یُّسْتَحْیَا مِنْہُ مِنَ النَّاسِ))’’لوگوں سے زیادہ اللہ کا حق ہے کہ اس سے حیا کی جائے۔‘‘[3] باب:8 احسان و بھلائی احسان پر مسلمان کی نظر صرف اس انداز کی نہیں کہ یہ ایک اچھی عادت ہے اور اسے اپنانا بہتر ہے بلکہ وہ اسے اپنے عقیدہ کا ایک حصہ اور اسلام کا بڑا جز سمجھتا ہے،اس لیے کہ دین اسلام کی بنیادیں تین ہیں:ایمان،اسلام اور احسان۔جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیثِ جبریل میں جبرائیل علیہ السلام کے جواب میں بیان فرمایا اور آخر میں فرمایا: ’ھٰذَا جِبْرِیلُ أَتَاکُمْ لِیُعَلِّمَکُمْ دِینَکُمْ‘ ’’یہ جبریل علیہ السلام تھے جو تمھیں تمھارا دین سکھانے آئے تھے۔‘‘[4]
Flag Counter