Maktaba Wahhabi

298 - 692
2: ماہواری اور نفاس کا خون منقطع ہونے پر بھی غسل لازم ہے۔حکم خداوندی ہے: ﴿فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ ۖ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّىٰ يَطْهُرْنَ ۖ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللّٰهُ﴾ ’’حیض(کے دنوں)میں عورتوں سے الگ رہو اور پاک ہونے تک ان کے قریب نہ جاؤ۔جب وہ خوب پاک ہو جائیں(غسل کرلیں)تو جہاں سے تمھیں اللہ نے حکم دیا ہے،وہاں سے ان کے پاس آؤ۔‘‘[1] اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:((اُمْکُثِي قَدْرَ مَا کَانَتْ تَحْبِسُکِ حَیْضَتُکِ ثُمَّ اغْتَسِلِي وَصَلِّي))’’جتنے دن تجھے حیض آتا تھا،اتنے دن ٹھہری رہ،پھر غسل کر اور نماز پڑھ۔‘‘[2] 3: موت بھی غسل واجب کر دیتی ہے،اس لیے کہ مسلمان جب مر جاتا ہے تو اسے غسل دینا ضروری ہو جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی حکم ہے۔صحیح حدیث میں ہے کہ زینب رضی اللہ عنہا بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر آپ نے انھیں غسل دینے کا حکم ارشاد فرمایا تھا۔[3] 4: جمعہ کے لیے بھی غسل کرنا واجب ہے:کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:((غُسْلُ یَوْمِ الْجُمُعَۃِ وَاجِبٌ عَلٰی کُلِّ مُحْتَلِمٍ))’’جمعہ کے دن کا نہانا ہر بالغ شخص پر واجب ہے۔‘‘[4] کن صورتوں میں نہانا مستحب ہے؟ 1: اسلام قبول کرنے والے کو چاہیے کہ غسل کرلے کفار میں سے جو اسلام قبول کرے،اسے نہانا چاہیے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ثمامہ بن اثال کو آزاد کیا تو اس نے اسلام قبول کرنے کے لیے غسل کیا۔[5] 2: احرام کے لیے:عمرہ یا حج کے احرام سے پہلے نہانا مسنون ہے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی نہائے تھے اور اس کا حکم بھی دیا تھا۔[6] 3: مکہ میں داخل ہونے[7]اور عرفات میں وقوف کے لیے:[8] اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان مواقع پر نہائے تھے۔
Flag Counter