Maktaba Wahhabi

302 - 692
باب:5 تیمم کا بیان تیمم کی مشروعیت اور اس کے احکام: ’’تیمم‘‘ کی مشروعیت قرآن کریم اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَإِن كُنتُم مَّرْضَىٰ أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِّنكُم مِّنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ﴾ ’’اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی بیت الخلا سے آیا ہو یا تم نے عورتوں کو ہاتھ لگایا ہو اور تم پانی نہ پاؤ تو پاک سطح زمین کا قصد کرو اور اپنے چہرے اور ہاتھوں کا مسح(کر کے تیمم)کرلو۔‘‘[1] اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:’اَلصَّعِیدُ الطَّیِّبُ وَضُوئُ الْمُسْلِمَ،وَإِنْ لَّمْ یَجِدِ الْمَائَ عَشْرَ سِنِینَ‘ ’’پاک مٹی مسلمان کے لیے وضو کا کام کرتی ہے،چاہے وہ دس سال پانی نہ پائے۔‘‘[2] جو شخص پانی تلاش کرتا ہے اور اسے نہیں ملتا یا پانی موجود ہے مگر بیماری کی وجہ سے استعمال کرنے پر قادر نہیں یا بیماری بڑھنے کا اندیشہ ہے یا وہ بیماری کی وجہ سے حرکت نہیں کر سکتا اور کوئی پانی دینے والا بھی نہیں ہے تو ان تمام صورتوں میں تیمم کر سکتا ہے۔٭ اگر پانی قلیل مقدار میں ہو،جس سے بعض اعضاء دھو سکتا ہے تو ان اعضاء کے لیے پانی استعمال کرلے،باقی کے لیے تیمم کرے کیونکہ اللہ سبحانہ کا ارشاد ہے: ﴿فَاتَّقُوا اللّٰهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ﴾’’اپنی استطاعت کے مطابق اللہ سے ڈرو۔‘‘[3] ٭ اگر پانی ٹھنڈا ہے اور اسے گرم کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے اور ’’ظن غالب‘‘ بھی یہ ہے کہ اس کے استعمال سے آدمی بیمار ہو جائے گا تو ایسی صورت میں ’’تیمم‘‘ کر کے نماز پڑھ لے۔جیسا کہ سنن أبی داود میں ’’جید سند‘‘ سے مروی ہے کہ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے ایسے ہی معاملہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاموشی اختیار کی تھی۔سنن أبي داود،الطھارۃ،باب إذا خاف الجنب البرد یتیمم،حدیث:334 اسے ابن حبان،حاکم اور ذہبی نے صحیح کہا ہے۔اور امام بخاری نے اسے تعلیقاً ذکر کیا ہے۔
Flag Counter