Maktaba Wahhabi

371 - 692
اور فرمان الٰہی ہے:﴿لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلَىٰ مَا هَدَاكُمْ﴾’’اور تاکہ تم اس بات کے بدلے کہ اللہ نے تمھیں ہدایت دی ہے،اس کی بڑائی بیان کرو۔‘‘[1] 4: ایک راستہ سے عید گاہ کی طرف جانا اور دوسرے راستہ سے واپس آنا بھی آداب عید میں سے ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز عمل یہی تھا۔جابر رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عید کے دن راستہ بدل لیتے تھے۔[2] 5: عید کی نماز کھلے میدان میں پڑھنی چاہیے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ کھلے میدان میں نماز عید پڑھتے تھے،[3]جیسا کہ صحیح احادیث میں مروی ہے۔ 6: عید کی ایک دوسرے کو مبارک دینی چاہیے،وہ اس طرح کہ ایک مسلمان اپنے مسلمان بھائی کو کہے: ’تَقَبَّلَ اللّٰہُ مِنَّا وَمِنْکَ‘ ’’اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہماری اور تمھاری(عبادت)قبول کرے۔‘‘[4] اس لیے بھی کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ عید کے دن جب وہ ایک دوسرے کو ملتے تو مذکورہ الفاظ کہتے۔[5] 7: عید الاضحی کے دن کھانے پینے میں وسعت کرنا اور مباح کھیل کود میں کوئی حرج نہیں ہے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((أَیَّامُ التَّشْرِیقِ أَیَّامُ أَکْلٍ وَّشُرْبٍ وَّذِکْرِ اللّٰہِ))’’ایام تشریق(13,12,11 ذوالحجۃ)کھانے پینے اور اللہ تعالیٰ کے ذکر کے دن ہیں۔‘‘[6] نیز انس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں تشریف لائے تو وہاں کے لوگ دو دن کھیل کود میں مشغول رہتے تھے تو آپ نے فرمایا: ((قَدْ أَبْدَلَکُمُ اللّٰہُ بِھِمَا خَیْرًا مِّنْھُمَا:یَوْمُ الْفِطْرِ وَیَوْمُ الْأَضْحٰی))’’اللہ تعالیٰ نے تمھیں ان کے بدلے میں ان سے بہتر دن دیے ہیں(یعنی)فطر اور اضحی کا دن۔‘‘[7] نیز عید کے دن دو بچیاں عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس شعر گا رہی تھیں،ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انھیں ڈانٹا تو آپ نے فرمایا: ((یَا أَبَا بَکْرٍ!إِنَّ لِکُلِّ قَوْمٍ عِیدًا،وَھٰذَا عِیدُنَا))’’اے ابوبکر!(رضی اللہ عنہ)ہر قوم کی عید ہوتی ہے اور یہ ہمارا عید کا دن ہے۔‘‘[8] ٭ نماز عیدین کا طریقہ: لوگ تکبیریں کہتے ہوئے عید گاہ کی طرف جائیں۔جب سورج چند میٹر اونچا ہو جائے تو
Flag Counter