Maktaba Wahhabi

380 - 692
((’فَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَّأَنْتُمْ بِھَا فَلَا تَخْرُجُوا مِنْھَا،وَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَّلَسْتُمْ بِھَا فَلَا تَھْبِطُوا عَلَیْھَا)) ’’جب کسی علاقے میں طاعون کی وبا پھیل جائے اور تم اس میں ہو تو اس سے نہ نکلو اور اگر تم اس علاقے میں نہیں ہو تو وہاں نہ جاؤ۔‘‘[1] ہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان،جس میں مرض کے متعدی ہونے کی نفی کی گئی ہے،کا مقصد یہ ہے کہ بیماری بالذات اللہ کے ارادہ اور قانون کے بغیر متعدی نہیں ہوتی بلکہ اللہ کے ملک کی ہر چیز اس کے ارادہ سے ہی واقع ہوتی ہے،لہٰذا اس اعتقاد کے ساتھ کہ بیماریوں سے بچانے والا صرف ایک اللہ ہے اور اگر وہ نہ بچائے تو بندہ کسی صورت نہیں بچ سکتا،احتیاط وپرہیز کیا جائے تو اس میں کوئی تضاد نہیں ہے۔خارش والے اونٹ کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا تو آپ نے فرمایا:’’تو پہلے(اونٹ)کو کس نے بیماری لگائی تھی۔‘‘ [2] اس میں آپ نے واضح کر دیا کہ مؤثر ایک اللہ ہی کی ذات ہے،وہ جو چاہتا ہے ہو جاتا ہے اور جو نہیں چاہتا نہیں ہوتا۔ 8 بیمار کی بیمار پرسی واجب ہے: مسلمان پر لازم ہے کہ اپنے بیمار مسلمان بھائی کی عیادت کرے اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((أَطْعِمُوا الْجَائِعَ،وَعُودُوا الْمَرِیضَ،وَفُکُّوا الْعَانِيَ))’’بھوکے کو کھانا کھلاؤ،بیمار کی عیادت کرو اور قیدی کو چھڑاؤ۔‘‘[3] اور بہتر یہ ہے کہ طبع پرسی کے لیے جب جائے تو اس کے لیے دعائے شفا کرے اور صبر کی تلقین کرے اور ایسی باتیں کہے جس سے اس کا دل خوش ہو جائے اور وہاں زیادہ دیر تک بیٹھا نہ رہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی بیمار کی بیمار پرسی کے لیے تشریف لے جاتے تو فرماتے: ((لَا بَأْسَ طَھُورٌ إِنْ شَائَ اللّٰہُ تَعَالٰی))’’کوئی حرج نہیں،اللہ کی مشیت سے(بیماری،گناہوں سے)پاک کرنے والی ہے۔‘‘[4] لہٰذا ایک دوسرے کی عیادت کے وقت اسی پر عمل ہونا چاہیے۔
Flag Counter