Maktaba Wahhabi

396 - 692
چیز کا سامنا نہ ہو۔ 9 سوگ کی بدعات: لوگوں نے جہالت عام ہونے کی وجہ سے تعزیت کے لیے گھروں میں اکٹھے ہو کر بیٹھنے،کھانے کے انتظامات کرنے اور فخر ومباہات کے طور پر اموال خرچ کرنے کا وطیرہ بنا لیا ہے،اسے ترک کرنا اور اس سے دور رہنا ضروری ہے،اس لیے کہ سلف صالحین رحمۃ اللہ علیہم گھروں میں جمع نہیں ہوتے تھے۔بلکہ قبرستان میں ایک دوسرے کو تسلی دلاتے یا جب ملاقات ہوتی تو تعزیت کرتے تھے۔ہاں اگر قبرستان میں نہ مل سکے اور راستہ میں بھی سامنا نہ ہو سکا ہو تو گھر میں انفرادی طور پر جانے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔اس کے لیے عمدًا مخصوص انداز میں اجتماع کرنا اور اس کے لیے خصوصی اہتمام بدعت ہے۔ 10 ورثائے میت کے لیے کھانا پکانا: اہل میت کے لیے کھانے کا انتظام کرنا مستحب ہے اور یہ انتظام رشتہ دار یا قریبی ہمسائے وفات کے دن کریں،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’اِصْنَعُوا لِآلِ جَعْفَرٍ طَعَامًا،فَإِنَّہُ قَدْ أَتَاھُمْ أَمْرٌ یُّشْغِلُھُمْ‘’’آل جعفر کے لیے کھانا تیار کرو،اس لیے کہ وہ اندوہناک خبر کی وجہ سے مشغول ہو گئے ہیں۔‘‘[1] اہل میت دوسروں کے لیے طعام کا انتظام کریں،یہ ایک بری بات اور غیر مناسب فعل ہے،اس لیے کہ یہ تو ان پر مصیبت کا اضافہ کرنا ہے،اگر ان کے ہاں کوئی مسافر مہمان آجائے تو اہل میت کے بجائے ہمسائے اور رشتہ دار اس کی ضیافت کا اہتمام کریں۔ 11 میت کی طرف سے صدقہ کرنا: میت کے لیے خیرات کرنا مستحب ہے،اس لیے کہ صحیح مسلم میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے کہا:اے اللہ کے رسول!میرا باپ فوت ہو گیا ہے اور مال چھوڑ گیا ہے،کوئی وصیت بھی نہیں کی،اگر میں اس کی طرف سے خیرات کروں تو کیا یہ اس کی کوتاہیوں کا کفارہ بنے گا۔آپ نے فرمایا:’’ہاں ‘‘۔[2] اور سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی والدہ فوت ہو گئیں تو سعد رضی اللہ عنہ نے کہا:اے اللہ کے رسول!میری ماں فوت ہو گئی ہے،کیا میں اس کی طرف سے خیرات کر سکتا ہوں۔آپ نے فرمایا:’’ہاں۔‘‘ تو انھوں نے کہا کہ پھر میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ میرا مخراف باغ میری ماں کی طرف سے صدقہ ہے۔‘‘[3] 12 میت کے لیے قرآن پڑھنا: اگر کوئی شخص مسجد یا گھر میں بیٹھ کر قرآن پاک کی تلاوت کرتا ہے اور تلاوت سے
Flag Counter