Maktaba Wahhabi

404 - 692
کے حساب سے زکاۃ ادا کر دی جائے۔لیکن اگر نصاب پورا نہ ہو اور اس کے علاوہ نقد رقم اس کے پاس موجود ہے تو وہ اس کے ساتھ شامل کر کے نصاب پورا کر لیا جائے۔[1] 4. قرضہ جات: اگر کسی نے قرض لینا ہے اور جب چاہے اس کے ملنے کی توقع ہے تو اسے سال گزرنے پر اپنے پاس موجود نقدی میں شامل کر کے زکاۃ ادا کرے اور اگر قرض والی رقم کے علاوہ نقدی نہیں ہے اور مال قرض سے نصاب پورا ہو گیا ہے تو بھی زکاۃ دے لیکن اگر قرض کسی تنگ دست سے لینا ہے جس سے مرضی کے مطابق وصولی کی امید نہیں ہے تو جب وصولی ہو گی ایک سال کی زکاۃ ادا کرے،چاہے اس پر کئی سال گزر چکے ہوں۔ 5. جاہلی دفینے: اگر کسی کو زمین یا گھر میں اہل جاہلیت کا مدفون خزانہ مل جائے تو اس کا پانچواں حصہ فقراء ومساکین اور خیراتی مہمات میں خرچ کر دے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:’فِي الرِّکَازِ الْخُمُسُ‘ ’’جاہلی دفینے میں پانچواں حصہ(خمس)ہے۔‘‘ [2] 6. کانیں: اگر سونے یا چاندی کی کان سے برآمدگی،نصاب تک ہو گئی ہے توزکاۃ ادا کر دے،درج ذیل حدیث اس پر دلیل ہے:’لَیْسَ فِیمَا دُونَ خَمْسِ أَوَاقٍ صَدَقَۃٌ‘ ’’پانچ اوقیہ سے کم میں زکاۃ نہیں ہے۔‘‘ [3] اس لیے کہ ’’اوقیہ‘‘کا لفظ سونے اور چاندی کی کان کو بھی شامل ہے۔مگر اللہ کے فضل سے اس معاملہ میں وسعت ہے۔ اگر کان میں سے لوہا،تانبا،بارود وغیرہ حاصل ہو تو اس پر زکاۃ نہیں ہے،اس لیے کہ کسی صریح نص میں ان اشیاء میں زکاۃ کا وجوب ثابت نہیں ہے اور نہ ہی یہ سونے،چاندی میں داخل ہیں کہ ان کی زکاۃ فرض ہو۔ 7. درمیان سال میں حاصل شدہ مال: اگر وہ مال سامان تجارت کے منافع کی صورت میں ہے یا جانوروں کی نسل کی بڑھوتری کی صورت میں تو اصل کے ساتھ دوران سال میں حاصل شدہ مال کی زکاۃ ادا کرے گا،خواہ اس پر سال گزرے یا نہ گزرے اور اگر پہلے سے موجود سامان تجارت کا منافع یا جانوروں کی نسل نہیں بلکہ الگ سے مال حاصل ہوگیا ہو تو اس کے لیے پورا سال اس کی ملکیت میں رہنا زکاۃ کی فرضیت کے لیے لازم ہے،لہٰذا ہبہ،عطیہ یا وراثت میں آمدہ مال پراس وقت زکاۃ ہو گی جب اس پر پورا سال گزر جائے گا۔
Flag Counter