Maktaba Wahhabi

405 - 692
چوپائے اونٹ: اونٹوں میں زکاۃ فرض ہونے کی شرط یہ ہے کہ نصاب(پانچ اونٹ)ملکیت میں آجائیں اور ان پر پورا سال گزر جائے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’لَیْسَ فِیمَا دُونَ خَمْسِ ذَوْدٍ صَدَقَۃٌ‘ ’’پانچ عدد اونٹ سے کم میں زکاۃ نہیں ہے۔‘‘ [1] پانچ اونٹ ہوں تو ایک سالہ بکری یا بھیڑ کا ایک سالہ بچہ ادا کرنا ہے اور دس میں دو بکریاں یا بھیڑیں اور پندرہ میں تین اور بیس میں چار اور پچیس اونٹوں میں ایک بنت مخاض(وہ اونٹنی جس کا دوسرا سال شروع ہوچکا ہو)اگر یہ نہ ہو تو ابن لبون(دو سالہ اونٹ تیسرا سال شروع ہوا ہو)اور اسی طرح چھتیس اونٹوں میں ایک بنت لبون(دو سالہ اونٹنی تیسرا سال شروع ہوا ہو)اور چھیالیس میں ایک حقہ(تین سالہ اونٹنی چوتھا سال شروع ہوا ہو)اور اکسٹھ میں جزعہ(چار سالہ مادہ اونٹنی پانچواں شروع ہوچکا ہو)اور چھہتر اونٹوں میں دو بنت لبون اور اکانوے میں دو حقے اور اگر ایک سو بیس ہوجائیں تو ہر چالیس میں بنت لبون اور ہر پچاس میں حقہ۔ تنبیہ:اگر اونٹوں میں متعین عمر سے کم عمر کا جانور موجود ہو تو وہ زکاۃ میں دے دیا جائے اور کمی کو دو بکریوں یا بیس درہم ساتھ ملا کر پورا کیا جائے۔اگر متعین عمر سے بڑی عمر کا جانور ہے تو وصول کرنے والا دو بکریاں یا ان کی قیمت بیس درہم مالک کو واپس کرے گا۔ہاں ابن لبون،بنت مخاض کی جگہ زکاۃ میں بغیر زیادتی کے کفایت کر جاتا ہے،جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ گائے: اس کی زکاۃ میں بھی نصاب اور پورا سال گزرنے کی شرط ہے اور نصاب تیس عدد گائیں ہیں،اس سے کم میں زکاۃ نہیں ہے اور تیس میں ایک سال کا بچھڑا واجب ہے،چالیس ہو جائیں تو دو سالہ مادہ اور اگر اس سے زائد ہوں تو ہر چالیس میں دو سالہ مسنہ(دو دانت والا)اور ہر تیس میں ایک سالہ بچھڑا۔اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:’وَفِي الْبَقَرِ فِي کُلِّ ثَلَاثِینَ تَبِیعٌ،وَفِي(کُلِّ)الْأَرْبَعِینَ مُسِنَّۃٌ‘ ’’ہر تیس گایوں میں ایک سالہ اور ہر چالیس میں دو سالہ بچھڑا ہے۔‘‘ [2] بھیڑ اور بکری کا نصابِ زکاۃ: ان کا نصاب چالیس کی تعداد ہے،چالیس بھیڑ بکریوں میں ایک بھیڑ یا بکری ہے اور ایک سو اکیس میں دو،جب دو سو ایک یا زائد ہو جائیں تو ان میں تین بکریاں یا بھیڑیں ہیں،البتہ اگر تین سو سے
Flag Counter