Maktaba Wahhabi

414 - 692
2. صدقۂ فطر کی حکمت: لغو ورفث کے آثار سے روزے دار کو یہ خیرات صاف وپاک کر دے گی،جبکہ عید کے دن فقرا ء ومساکین کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے سے بھی بے نیاز ہو جائیں گے۔ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: ((فَرَضَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم زَکَاۃَ الْفِطْرِ طُھْرَۃً لِّلصَّائِمِ مِنَ اللَّغْوِ وَالرَّفَثِ وَطُعْمَۃً لِّلْمَسَاکِینِ)) ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ دار کو لغو ورفث سے پاک کرنے اور مساکین کی خوراک کے لیے صدقۂ فطر فرض کیا ہے۔‘‘[1] اور فرمایا:’أَغْنُوھُمْ عَنْ طَوَافِ ھٰذَا الْیَوْمِ‘ ’’اس دن ان(مساکین)کو سوال سے بے نیاز کردو۔‘‘[2] 3. صدقۂ فطر کی مقدار اور جن چیزوں سے یہ ادا کیا جائے گا: صدقۂ فطر کی مقدار ایک صاع ہے اور ایک صاع،چار مد(دو کلو 100گرام)کا ہوتا ہے اور شہر میں جو خوراک گندم،جو،کھجور،چاول،کشمش اور پنیر میں سے زیادہ استعمال ہوتی ہو،اسی میں سے یہ صدقہ ادا کیا جائے گا،ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں چھوٹے بڑے،آزاد وغلام کی طرف سے ایک صاع طعام یا ایک صاع پنیر یا ایک صاع جو یا ایک صاع کھجور یا ایک صاع کشمش کا نکالتے تھے۔[3] 4. فطرانہ کی ادائیگی،نقدی سے یا غلہ سے: لازم یہی ہے کہ صدقۂ فطر میں خوراک کی انواع میں سے کوئی جنس دی جائے،اس کے بجائے بلا ضرورت نقد رقم نہیں دینی چاہیے،اس لیے کہ رسول اللہ سے یہ ثابت نہیں ہے کہ آپ نے طعام کے بدلے نقد روپے کی ادائیگی کی ہو بلکہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی یہ بات ثابت نہیں ہے،البتہ صرف ضرورت کے وقت نقدی دی جاسکتی ہے۔ 5. صدقۂ فطر کے وجوب اور ادائیگی کا وقت: صدقۂ فطر شوال کی پہلی تاریخ،یعنی عید کی رات کی ابتدا سے واجب ہو جاتا ہے اور عید کی نماز سے پہلے ادائیگی ضروری ہے،ہاں ایک دو دن پہلے بھی ابن عمر رضی اللہ عنہما سے صدقۂ فطر ادا کرنا ثابت ہے،جس سے جواز نکلتا ہے اور افضل وقت یہ ہے کہ عید کی صبح صادق کے بعد اور نماز عید سے پہلے ادا ہو،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ نماز کی طرف جانے سے پہلے زکاۃ فطر ادا کرلی جائے،[4] اور
Flag Counter