Maktaba Wahhabi

465 - 692
الْقِیَامَۃِ بِقُرُونِھَا وَأَظْلَافِھَا وَأَشْعَارِھَا،وَإِنَّ الدَّمَ لَیَقَعُ مِنَ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ بِمَکَانٍ قَبْلَ أَنْ یَّقَعَ عَلَی الْأَرْضِ،فَطِیبُوا بِھَا نَفْسًا)) ’’دس ذوالحجہ کو خون بہانے سے بڑھ کر ابن آدم اللہ تعالیٰ کے ہاں کوئی بہتر عمل نہیں کرتا،یہ جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں،کھروں اور بالوں سمیت آئیں گے اور خون کے زمین پر گرنے سے پہلے اللہ کے ہاں اس کا ایک مقام ہوتا ہے سو تم یہ قربانی خوش دلی سے دیا کرو۔‘‘[1] ٭ قربانی کی حکمت: 1: اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے،اس لیے کہ اللہ کا حکم ہے: ﴿فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ﴾’’پس اپنے رب کے لیے نماز پڑھ اور قربانی کر۔‘‘[2] نیز فرمایا:﴿قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ﴿١٦٢﴾لَا شَرِيكَ لَهُ﴾ ’’کہہ دو کہ بے شک میری نماز،میری قربانی،میری زندگی اور موت اللہ کے لیے ہے،جو جہانوں کا پالنے والا ہے،اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔‘‘[3] آیت میں ’’نُسُک‘‘سے مراد اللہ کا تقرب حاصل کرنے کے لیے جانور ذبح کرنا ہے۔ 2: قربانی امام الموحدین ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی سنت کا احیا ہے،اس لیے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے انھیں وحی کی کہ اپنے بیٹے اسماعیل کو ذبح کریں،پھر اس کے فدیہ میں مینڈھا عطا کیا اور خلیل اللہ نے اپنے فرزند کے بدلے اسے ذبح کیا۔ارشاد ربانی ہے:﴿وَفَدَيْنَاهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ﴾’’اور ہم نے انھیں فدیہ میں ذبح عظیم(بڑی بابرکت قربانی)دی۔‘‘[4] 3: عید کے دن کنبہ اور خاندان پر وسعت کی جاتی ہے اور فقرا و مساکین میں اللہ کی رحمت عام ہوتی ہے۔ 4: چوپائے جانوروں کو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے مسخر کر دیا ہے،قربانی اس نعمت پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ ۚ كَذَٰلِكَ سَخَّرْنَاهَا لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ﴿٣٦﴾لَن يَنَالَ اللّٰهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَـٰكِن يَنَالُهُ التَّقْوَىٰ مِنكُمْ﴾ ’’سو ان میں سے خود بھی کھاؤ اور قناعت کرنے والوں اور مانگنے والوں کو بھی کھلاؤ۔اسی طرح ہم نے انھیں تمھارے لیے مسخر کر دیا ہے تاکہ تم شکر کرو۔اللہ کو ان کے گوشت اور خون نہیں پہنچتے لیکن اسے تمھارا تقویٰ(دلی خلوص)پہنچتا ہے۔‘‘[5]
Flag Counter