Maktaba Wahhabi

486 - 692
انھیں قتل کرنے،فدیہ لے کر چھوڑنے اور معاف کر دینے کا اختیار ہے مگر عورتیں اور ان کی اولادیں اس صورت میں بھی حلال نہیں ہیں،اس لیے کہ مجرم کے جرم کی سزا دوسرے کو نہیں دی جاتی۔ سمجھوتہ،معاہدہ اور صلح کا بیان: ٭ سمجھوتہ: اگر یقینی طور پر مسلمانوں کے مفاد میں ہو تو حربیوں کے ساتھ کسی بات پر صلح کرنا جائز ہے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد بار لڑائیوں میں حربیوں کے ساتھ صلح کی ہے،جیسا کہ یہود مدینہ کے ساتھ آپ کا ایک معاہدہ ہوا تھا،جسے انھوں نے توڑ دیا تھا اور آپ کے ساتھ دھوکا کیا تھا،جس کے نتیجے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ لڑائی کی اور انھیں جلا وطن کر دیا۔[1] ٭ معاہدہ: مسلمانوں اور ان کے مخالفوں کے درمیان ایک دوسرے پر زیادتی نہ کرنے اور اچھے ہمسایوں کی طرح رہنے کا معاہدہ کرنا جائز ہے،اگر اس میں یقینا مسلمانوں کے لیے مصلحت ہو،جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی معاہدے کیے۔آپ فرمایا کرتے تھے:’نَفِي لَھُمْ بِعَھْدِھِمْ وَنَسْتَعِینُ اللّٰہَ عَلَیْھِمْ‘ ’’ہم ان کا عہد پورا کریں گے اور ان کے خلاف اللہ تعالیٰ سے مدد کے خواستگار رہیں گے۔‘‘[2] اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿إِلَّا الَّذِينَ عَاهَدتُّمْ عِندَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۖ فَمَا اسْتَقَامُوا لَكُمْ فَاسْتَقِيمُوا لَهُمْ ۚ إِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ﴾ ’’مگر جن لوگوں کے ساتھ تم نے مسجد حرام کے پاس عہد کیا ہے تو جب تک وہ تمھارے ساتھ سیدھے ہیں،تم ان کے ساتھ سیدھے رہو،بے شک اللہ پرہیزگاروں سے محبت کرتا ہے۔‘‘[3] اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’معاہد‘‘٭ کے قتل کو حرام قرار دیا ہے،چنانچہ ارشاد ہے:’مَنْ قَتَلَ مُعَاھَدًا لَّمْ یَرَحْ رَائِحَۃَ الْجَنَّۃِ‘ ’’جو کوئی ’’معاہد‘‘کو قتل کر دیتا ہے،وہ بہشت کی ہوا نہیں پائے گا۔‘‘[4] اور فرمایا: ٭ ذمی اور معاہد دونوں کافر ہوتے ہیں،دونوں سے مسلمانوں کا معاہدہ ہوتا ہے فرق یہ ہے کہ ذمی اسلامی حکومت کے علاقے میں رہ کر جزیہ دیتا اور جرم کی صورت میں اپنے اوپر اسلامی سزاؤں کے نفاذ کو قبول کرتا ہے جبکہ معاہد وہ کافر ہے جو خود اسی سے یا اس کے ملک سے اسلامی حکومت کا معاہدۂ صلح ہوجائے۔اور حربی سے مراد وہ کافر ہے جو نہ تو ذمی ہے اور نہ معاہد،یعنی نہ اس سے کوئی معاہدۂ صلح ہے اور نہ اس کے ملک سے۔(ع۔و)
Flag Counter