Maktaba Wahhabi

49 - 692
ان صفات کے علاوہ ہم کسی(خود ساختہ)صفت کے قائل نہیں اور نہ ان صفات میں کسی حدبندی اور انتہا کے قائل ہیں۔ہم جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے مثل کوئی چیز نہیں اور وہ سننے اور دیکھنے والا ہے۔‘‘ عقلی دلائل: 1: اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے آپ کو کئی صفات کے ساتھ موصوف اور کئی ناموں کے ساتھ موسوم قرا دیا ہے اور ہمیں ان کے ذکر اور ان کے ساتھ اس(اللہ)کو موصوف و موسوم کرنے سے منع نہیں کیا،نہ ہمیں ان میں تاویل و تحریف کا حکم دیا ہے،نہ یہ کہا ہے کہ ہم انھیں ظاہر پر محمول نہ کریں(ظاہری معنی مراد نہ لیں)تو پھر کیونکر کہا جاسکتا ہے کہ ان صفات سے موصوف ہونے کی وجہ سے وہ مخلوق کے مشابہ ہو گیا،لہٰذا ان کی تاویل کرنا لازم ہے اور ان کا ظاہری معنی مراد لینا درست نہیں ؟ پھر تو ہم صفات کے منکر بن جائیں گے اور اللہ تعالیٰ کے ناموں میں کج روی کے مرتکب ہوں گے۔جبکہ کج روی پر شدید ترین وعید ہے۔ارشاد ربانی ہے:﴿وَذَرُوا الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي أَسْمَائِهِ ۚ سَيُجْزَوْنَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ﴾’’اور ان لوگوں کو چھوڑو،جو اللہ کے ناموں میں کج روی اختیار کرتے ہیں،عنقریب یہ لوگ اپنے کرتوتوں کی سزا پائیں گے۔‘‘[1] 2: ’’تشبیہ‘‘ کے اندیشے سے جو اللہ تعالیٰ کی کسی صفت کی نفی کرتا ہے،وہ دو خرابیوں کا مرتکب ہوا،اولاً اس نے اللہ تعالیٰ کی صفات کو مخلوق کی صفات سے تشبیہ دی۔[2] ثانیاً تشبیہ سے ڈرا اور اس سے بھاگتے ہوئے ’’نفی‘‘ و ’’تعطیل‘‘ کا مرتکب ہو گیا۔یعنی جن صفات کا اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے اثبات کیا تھا،اس نے ان کی نفی اور تردید کر دی اور کہا کہ اللہ تعالیٰ ان صفات سے متصف نہیں ہے۔چنانچہ وہ درج ذیل دو کبیرہ جرائم کا مرتکب ہوا:(1)تشبیہ صفات(2)تعطیل صفات۔ اس صورت میں معقول اور بہتر بات یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کردہ صفات کو تسلیم کیا جائے کہ اللہ تعالیٰ ان سے متصف ہے اور یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات مخلوق کی صفات کی طرح نہیں،جیسا کہ اس کی ذات مخلوق کی ذات کی طرح نہیں۔[3] 3: اللہ جل جلالہ کی صفات ماننے سے تشبیہ لازم نہیں آتی،اس لیے کہ عقل باور کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات مخصوص ہیں جو مخلوق کی صفات کے مشابہ نہیں ہیں۔لفظ کے اطلاق میں اگرچہ یکسانیت ضرور ہے لیکن خالق کی صفات خالق کے ساتھ خاص ہیں اور مخلوق کی مخلوق کے ساتھ۔
Flag Counter