Maktaba Wahhabi

492 - 692
طرف سے کچھ بھی طے نہ ہو،مثلاً:ایک ساتھی دوسرے کو کہتا ہے کہ اس مقابلے میں اگر تو مجھ پرغالب آ گیا تو میں تجھے دس یا 20 دینار دوں گا اور اگر میں غالب آگیا تو تیرے ذمہ کچھ لازم نہیں تو یہ جائز ہے،اگر دونوں فریق انعام کی شرط لگاتے ہیں تو جمہور علماء اس کے جواز کے لیے یہ شرط لگاتے ہیں کہ پھر ان کے ساتھ ایک تیسرا فرد یا فریق بھی مقابلہ میں آئے،جبکہ وہ انعام دینے والوں میں شامل نہ ہو،البتہ اگر غالب آ جائے تو انعام کا مستحق ہو۔سعید بن مسیب رحمہ اللہ کی رائے یہی ہے۔امام مالک رحمہ اللہ نے اسے پسند نہیں کیا،جبکہ دوسرے اس کو درست قرار دیتے ہیں۔ دوڑ اور تیر اندازی کا طریقہ: دوڑ میں درج ذیل امور کو ملحوظ رکھنا چاہیے: ٭ گھوڑا یا اونٹ یا ٹینک یا ہوائی جہاز متعین ہو۔ ٭ جن چیزوں کے ذریعے سے مقابلہ کیا جا رہا ہے وہ ایک ہی جنس کے ہوں،اسی و جہ سے ہی اونٹ اور گھوڑے کا مقابلہ درست نہیں ہو گا۔ ٭ مسافت،جہاں تک دوڑنا ہے،محدود اور متعین ہو۔ ٭ اگر مقابلہ شرطیہ انعامی ہے تو انعام کا تعین ہو۔ مقابلے میں شریک سواروں کے گھوڑے ایک صف میں کھڑے ہو جائیں،اس طرح کہ ان کے پاؤں ایک دوسرے کے برابر ہوں،پہلے منصف انھیں تیار ہونے کی آواز لگائے اور پھر تین بار اللہ اکبر کہے اور تیسری تکبیر پر دوڑ پڑیں اور مسافت کے اختتام پر دو منصف موجود ہونے چاہئیں اور وہ دیکھیں کہ کس گھوڑے کا ’’سم‘‘مقررہ لکیر پر پہلے ٹکا ہے تو اس کو کامیاب قرار دیں۔اگر بڑے چھوٹے کئی انعامات مقرر کیے گئے ہیں تو پہلا انعام ’’مجلی‘‘کو دیا جائے،دوسرا انعام ’’مصلی‘‘ کو،پھر ’’تالی‘‘ کو،پھر ’’بارع‘‘کو،پھر ’’مرتاح‘‘کو،پھر ’’خطی‘‘،پھر ’’عاطف‘‘کو،پھر ’’مؤمل‘‘ کو،پھر ’’لطیم‘‘کو،پھر ’’ سکیت‘‘کو،پھر ’’غسکل‘‘ کو۔اس کے بعد کے گھوڑے انعام کے مستحق نہیں ہیں۔| رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’لَا جَلَبَ وَلَا جَنَبَ وَلَا شِغَارَ فِي الإِْسْلَامِ‘ ’’اسلام میں جلب،جنب اور شغار جائز نہیں ہیں۔‘‘[1] ٭ جلب: مقابلہ میں شریک شخص اپنے کسی ساتھی کو کہے کہ راستہ میں میرے گھوڑے کو آواز لگا دینا،جس سے یہ اور تیز دوڑے گا۔یا مقابلہ کے وقت اپنے گھوڑے کو ڈانٹنا،زور زور سے آوازیں نکال کر اسے مزید تیز دوڑنے پر مجبور کرنا۔[2] ٭ مجلی،مصلی وغیرہ درجہ بندی کے لحاظ سے گھوڑوں کے نام ہیں،یعنی سب سے اول آنے والے گھوڑے کو مجلی دوسرے نمبر پر آنے والے کو مصلی،تا آخر کہتے ہیں۔(ع،و)
Flag Counter