Maktaba Wahhabi

493 - 692
٭ جنب: مقابلے میں شریک آدمی اپنے گھوڑے کے پہلو میں دوسرا گھوڑا رکھے،جب مرکوب گھوڑا تھک جائے تو یہ اس دوسرے خالی گھوڑے پر سوار ہو جائے۔[1] گھوڑ دوڑ سے ’’مناضلہ‘‘افضل ہے،یعنی تیر اندازی یا جدید آلات سے گولی پھینکنے کے مقابلے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((اِرْمُوا وَارْکَبُوا،وَأَنْ تَرْمُوا أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ تَرْکَبُوا))’’تیر اندازی اور سواری کرو،اور تیر پھینکنا مجھے سواری سے زیادہ پسند ہے۔‘‘[2] اس کی و جہ یہ ہے کہ جہاد میں تیر اندازی سواری سے زیادہ مؤثر ہوتی ہے۔ تیر اندازی میں درج ذیل امور کو ملحوظ رکھنا مناسب ہے: ٭ مقابلہ ان لوگوں کے درمیان ہو جو اس تیر اندازی کے فن کو خوب جانتے ہوں۔ ٭ ’’ ہدف‘‘کو لگانا شمار کیا جائے گا کہ اگر اتنی بار ’’ہدف‘‘کو لگا تو وہ کامیاب ہے۔ ٭ رمایہ(تیر اندازی)میں تعین ہو جائے کہ وہ ’’مبادرہ‘‘کے انداز کی ہے یا ’’مفاضلہ‘‘کے انداز کی۔’ ’مبادرہ‘‘یہ ہے کہ بیس دفعہ تیر چلانے میں پانچ بار کون پہلے ہدف کو صحیح نشانہ لگاتا ہے،جبکہ ’’مفاضلہ ‘‘یہ ہے کہ بیس میں سے پانچ نشانے زیادہ صحیح کس کے ہیں ؟ ٭ ’ ’ہدف‘‘جس کو تیر مارنا ہے متعین ہو اور قربت یا دوری میں مناسب مسافت پر ہو۔ اندازِ رمایہ پر اتفاق کے بعد کوئی ایک فرد تیر پھینکے،اگر جھگڑا ہو جائے اور ہر فرد کہے:میں پہلے پھینکتا ہوں تو قرعہ اندازی کر لی جائے۔جس کے نام کا قرعہ نکلے وہی پہلے تیر چلائے۔اس مقابلے میں آخر تک کسی پر ظلم و زیادتی نہیں ہونی چاہیے اور جو جیت گیا وہی انعام وصول کرے گا۔ تنبیہ:گھوڑے اور اونٹ دوڑانا اور تیر اندازی کرنا،صرف جائز ہیں،فرض اور لازم نہیں ہیں۔لہٰذا مقابلہ شروع ہونے سے پہلے مقابلے میں شریک ہر فریق جب چاہے اس معاہدے کو منسوخ کر سکتا ہے۔ انعامی اور غیر انعامی،ناجائز مقابلے: نرد و شطرنج اور ہمارے دور کے اسی انداز کے دیگر کھیل جائز نہیں ہیں،،مثلاً:کیرم،تاش،ڈیمنو،بلیئرڈ گیم اور ٹیبل ٹینس وغیرہ بھی اس میں شامل ہیں،البتہ فٹ بال میں اس نیت سے مشارکت کی جائے کہ وہ بدنی قوت کی حفاظت میں ممدومعاون بنتی ہے،بشرطیکہ رانیں ننگی نہ ہونے پائیں اور کھیل میں مصروفیت نماز میں تاخیر کا باعث نہ بن جائے اور بے ہودہ گوئی،ایک دوسرے پر آوازیں کسنا،گالی گلوچ اور اسی طرح کی فحش باتوں
Flag Counter