Maktaba Wahhabi

500 - 692
اور الٹے پلٹے بغیر،نہیں بیچنا چاہیے اور اسی طرح غائب سامان کی صفت،نوعیت اور مقدار معین کا معلوم ہونا جواز بیع کے لیے ضروری ہے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:’لَا تَشْتَرُوا السَّمَکَ فِي الْمَائِ،فَإِنَّہُ غَرَرٌ‘’’پانی میں موجود مچھلی نہ خریدو کیونکہ اس میں جہالت ہے۔‘‘ [1] ابن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں:((نَھٰی رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم أَنْ تُبَاعَ ثَمَرَۃٌ حَتّٰی یُطْعَمَ،أَوْصُوفٌ عَلٰی ظَھْرٍ،أَوْلَبَنٌ فِي ضَرْعٍ أَوْ سَمَنٌ فِي لَبَنٍ)) ’’کھانے کے قابل ہونے سے پہلے پھل بیچنے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے،اسی طرح پیٹھ پر اون،تھن میں دودھ یا دودھ میں گھی کی بیع(بھی ممنوع ہے۔‘‘)[2] نیز انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: ((أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم نَھٰی عَنْ بَیْعِ الثَّمَرَۃِ حَتّٰی تُزْھِيَ،قَالُوا:وَمَا تُزْھِيَ؟ قَالَ:تَحْمَرُّ)) ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھلوں کے پکنے سے پہلے ان کی بیع سے منع فرمایا(صحابہ نے)پوچھا:پکنے سے کیا مراد ہے؟ تو آپ نے فرمایا:’’اس کا سرخ ہونا(اور زرد ہونا)۔‘‘ [3] ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:’نَھَی النَّبِيُّ صلی اللّٰه علیہ وسلم عَنِ الْمُلَامَسَۃِ وَالْمُنَابَذَۃِ‘ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع ملامسہ اور منابذہ سے منع کیا ہے۔‘‘[4] ’’ملامسہ‘‘ یہ ہے کہ ایک شخص دوسرے کے کپڑے کو ہاتھ لگا دے،اسے الٹ پلٹ کر نہ دیکھے(اور سودا پکا ہو جائے)اور ’’منابذہ‘‘یہ ہے کہ ایک شخص اپنا کپڑا دوسرے کی طرف پھینکتا ہے اور دوسرا اس کی طرف،اور یہی ان کے مابین بیع قرار پائے،جبکہ دونوں صورتوں میں چیز کو غور سے نہیں دیکھا گیا اور نہ ہی پوری جانچ پڑتال کی گئی ہے۔ 6 ایک بیع میں دو بیع: مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے کہ ایک ’’بیع‘‘ میں دو بیع(دوہرا سودا)کرے بلکہ ہر سودا الگ الگ ہونا چاہیے،اس لیے کہ اس میں ابہام ہوتا ہے،جو ایذا کا سبب بنتا ہے اور پھر اس میں دوسرے کا ناحق مال کھایا جاتا ہے۔ایک سودے میں دو سودوں کی کئی صورتیں بن سکتی ہیں،مثلاً: ٭ ایک شخص دوسرے کو کہتا ہے کہ یہ چیز نقد میں لے تو دس روپے میں اور اگر ادھار لے تو پندرہ روپے میں اور پھر اسی پر بات ختم ہو جائے اور یہ تعین نہ کیا جائے کہ کون سی ’’بیع‘‘ ’’پختہ ہوئی ہے،نقد یا ادھار پر۔
Flag Counter